اختلاف ایک چیز کے دوسری چیز کے خلاف ہونے کو کہتے ہیں، یہ اختلاف معاملات میں بھی ہوتاہے اور آراء و افکار میں بھی، اس لیے فقہا کے درمیان بے شمار مسائل میں اختلاف رائے رہا ہے، یہ اختلاف اگر اخلاص کے ساتھ ہو تو مذموم نہیں۔

اختلاف برہان و زمان

ترمیم

فقہا کے یہاں آراء و افکار کے درمیان جو اختلاف واقع ہوتا ہے وہ دو طرح کا ہوتاہے، اختلاف زمان اور اختلاف برہان، اختلاف برہان سے مراد ایسا اختلاف رائے ہے جس کی بنیاد دلیل و نظر پر ہو، یہ اختلاف تو ظاہر ہے ہمیشہ رہے گا، اوراختلاف زمان اس اختلاف کو کہتے ہیں جو نکات نظر کے فرق اور دلائل پر مبنی نہ ہو، بلکہ زمانہ ، حالات اور عرف کی رعایت سے ایک فقیہ نے ایک رائے قائم کی پھر جب حالات بدل گئے اور عرف تبدیل ہو گیا تودوسرے فقیہ نے بدلے ہوئے حالات اور عرف کو پیش نظر رکھ کر دوسرا حکم دیا، فقہا متاخرین کی کتابوں میں بکثرت اس کے اشارات ملتے ہیں۔

فقہی اختلاف

ترمیم

فقہا کے درمیان جو کچھ اختلاف پایا جاتا ہے ، مخلصانہ ہے، اس میں ان کی رائے پر اصرار وضدیا اپنے کسی خیال کی پچ رکھنا ہرگز مقصود نہ تھا، امام ابوحنیفہ کا حال یہ تھا کہ وہ جب بھی فتوی دیتے کہتے: یہ نعمان بن ثابت ؒ کی رائے ہے اور یہ میری جستجو کی حد تک بہتر ہے، اگر اور کوئی شخص اس سے زیادہ بہتر رائے مستنبط کرے تو وہ زیادہ صحیح اور درست ہوگی، امام مالک فرماتے ہیں کہ رسول خدا ﷺ کے سوا ہر شخص اپنی گفتگو میں ماخوذ ہے اور اس کی رائے رد کی جا سکتی ہے ، امام شافعیؒ کا قول ہے کہ جو حدیث صحیح ثابت ہو جائے وہی میرا مذہب ہے ، امام احمد کہا کرتے تھے کہ خدا اور رسول کے کلام کے مقابلہ میں کسی کی رائے اور کلام کی اہمیت نہیں [1]

اختلاف کے اسباب

ترمیم

ان حضرات کے درمیان جو فقہی اختلاف پائے جاتے ہیں اس کے کچھ اسباب ہیں ، ان میں سے اہم اسباب یہ ہیں:

(1)کبھی کسی فقیہ تک حدیث پہنچی ، کسی تک نہ پہنچ سکی۔

(2) کبھی اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ کے عمل کو کسی نے وجوب پر محمول کیا ، کسی نے استحباب پر اور کسی نے محض اباحت پر۔

(3) کبھی روایات کا اختلاف اور راویوں کا وہم ، مثلا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی میں ایک ہی حج فرمایااور اس کو کسی نے تمتع کسی نے قران اور کسی نے افراد نقل کیا۔

(4) علت اور اسباب کی تعیین میں اختلاف، مثلا استنجاء کے وقت استقبال قبلہ سے ممانعت کی علت امام ابوحنیفہؒ نے احترام قبلہ قرار دی اور امام شافعیؒ نے یہ کہ اس کی وجہ سے اجنہ جو مصروف نماز ہوں گے ان کا سامنا یا پیچھا ہوگا۔

(5) کسی لفظ مشترک کی تعیین میں اختلاف، مثلا قرآن کے لفظ ثلاثۃ قروء میں امام ابو حنیفہؒ نے قرء کا معنی حیض قرار دیا اور امام شافعیؒ نے طہر۔

(6) کسی حدیث کو قبول کرنے اور نہ کرنے میں اصولی اختلاف، مثلا امام ابوحنیفہؒ اور امام مالکؒ کے یہاں مرسل روایات بھی معتبر ہیں، امام شافعی ؒ اور امام احمدؒ کے یہاں نہیں۔

(7) احادیث کی وجہ سے ترجیح میں اختلاف، مثلا رفع یدین کے مسئلہ پر امام ابو حنیفہؒ اور امام اوزاعیؒ کا مناظرہ  ہوا، دونوں کئی پاس صحیح حدیثیں تھیں، امام ابو حنیفہ ؒکے پاس ابن مسعودؓ کی اور امام اوزاعیؒ کے پاس ابن عمرؓ کی ، مگر وجہ ترجیح میں اختلاف تھا، امام ابوحنیفہ کے یہاں وہ سند زیادہ قوی تھی جو جو فقیہ افراد پر مشتمل ہو ، اس لیے ابن مسعودؓ کی روایت کو ترجیح دی، امام اوزاعیؒ کے نزدیک اس کو زیادہ اہمیت حاصل تھی ، جس کی سند میں واسطے کم ہوں، اس لیے ابن عمر کی روایت تقدم رکھتی تھی اور انھوں نے اس روایت کو ترجیح دیا۔

(8) کہیں نسخ میں اختلاف یعنی دو متعارض روایتیں وارد ہوئیں ، ضرور ہے کہ اس میں ایک منسوخ ہوگی اور دوسری ناسخ، لیکن چونکہ تاریخی طور پر یہ بات پایۂ ثبوت کو نہ پہنچ سکی کہ پہلا فرمان یا عمل کون ہے جو منسوخ ہے اور دوسرا ارشاد یا عمل کیا ہے جو پہلے حکم کے لیے ناسخ ہے، اس لیے کسی نے ایک حکم کو منسوخ اور دوسرے کو باقی ٹھرایااور کسی نے دوسرے کو۔

اختلاف کے باوجود باہمی رویہ

ترمیم

مگر ان اختلاف کے باوجود ان حضرات میں باہم جدل و نزاع ، جذبۂ برتری یا دوسروں کے لیے تحقیر کی نیت ہر گز نہ ہوتی تھی ، امام ابوحنیفہؒ اہل مدینہ کے پیچھے نماز ادا کرتے تھے جو بہت سے مسائل میں ان سے اختلاف رکھتے تھے، امام شافعیؒ نے فجر کی نماز ابوحنیفہؒ کی قبر کے قریب پڑھی تو دعا قنوت نہ پڑھی اور کہاکہ مجھے اس قبر والے کی مخالفت کرتے ہوئے شرم محسوس ہوتی ہے، امام ابو یوسفؒ نے پانی کے بعض مسائل میں امام مالکؒ کی رائے پر عمل کیا[2] ۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. میزان الشریعۃ الکبری: 1/63-68
  2. قاموس الفقہ:55/2