ادیم تغلبی
ادیم التغلبی رحمہ اللہ اہل کتاب تابعی تھے۔
ادیم التغلبی رحمہ اللہ | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
درستی - ترمیم |
نام ونسب
ترمیماُدیم، ہذیم یاہریم نام (نام میں اختلاف ہونے کی وجہ سے بعض لوگوں نے ایک کی بجائے دوآدمیوں کوشمار کیا ہے؛ چنانچہ صاحب بذل المجہود نے عین المعبود کے مؤلف پریہ استدراک کیا ہے کہ وہ ان دونوں آدمیوں کوایک سمجھتے ہیں؛ حالانکہ ایک نہیں دوہیں، ہریم تابعی ہیں اور ہذیم صحابی؛ لیکن یہ استدراک میرے خیال میں صحیح نہیں ہے، اربابِ رجال نے ان کوایک ہی شمار کیا ہے، اسدالغابہ میں ہے کہ ادیم اور ہذیم ایک ہی ہیں، صاحب اصابہ نے بھی اسی کی تائید کی ہے، رہا ہریم، توہریم ابن عبد اللہ الصاری کا نام کتب رجال میں ملتا ہے؛ لیکن ان سے بھی ابن سعید کی یہ روایت ثابت نہیں ہے اور اس نام کا کوئی دوسرا شخص جس سے صبئی کی روایت بھی ثابت ہو، کتب رجال میں نہیں ملتا، یہ روایت نسائی اور سنن بیہقی میں بھی ہے؛ لیکن اس میں اُدیم، ہذیم یاہریم کے واسطے سے روایت نہیں ہے، ابوداؤد میں ہزیم کا نام آیا ہے؛ لیکن نسخوں کے اختلاف کی وجہ سے ان کے نام میں بھی کافی اختلاف ہے، اس لیے ہم نے بھی ارباب رجال کے اتباع میں ان کوایک ہی شمار کیا ہے) باپ کا نام عبد اللہ تھا، خاندان تغلب کے نصرانیوں سے نسبی تعلق تھا (ان کی نصرانیت کی کوئی تصریح نہیں ملتی؛ لیکن دوقبائل ترجیح قرینے موجود ہیں جن کے پیش نظر ہم نے ان کواس فہرست میں لے لیا ہے، ایک یہ کہ اسدالغابہ میں ہے کہ لأن بني تغلب كانوا نصارى [1] ترجمہ: بنوتغلب نصاریٰ تھے اور اس لیے ان کا تغلبی ہونا ثابت ہوتا ہے، دوسرے یہ کہ صبئی ابن معید نے اپنی روایت می یہ تصریح کی ہے کہ اُدیم ان کے خاندان اور قوم کے آدمی تھے اور صبئی ابن معید کے متعلق معلوم ہے کہ وہ نصرانی اور تغلبی تھے) زمانۂ قبولِ اسلام کے متعلق کوئی تصریح نہیں مل سکی۔ یہ صحابی ہیں یاتابعی اس کے بارے میں ارباب رجال کے درمیان اختلاف ہے، صاحب اسدالغابہ اور صاحب استیعاب نے ان کوصحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین میں شمار کیا ہے اور صاحب اصابہ نے اپنی کتاب کی تیسری قسم یعنی محضرمین میں داخل کیا ہے، جولوگ ان کوصحابہ کی فہرست میں داخل کرتے ہیں غالباً ان کے پیش نظر ابوداؤد کی وہ روایت ہے جس میں ایک تابعی صبی بن معید نے ان سے حج میں قرانِ کے متعلق دریافت کیا تھا توانھوں نے صبی کواس کی اجازت دے دی تھی۔ حدیث کی کتابوں میں یہی ایک روایت ان سے مروی ہے؛ لیکن ابوموسیٰ نے لکھا ہے کہ کسی نے اس روایت کی سند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک نہیں پہنچائی ہے اور یہی سبب ہے کہ صاحب اصابہ نے ان کوصحابی شمار نہیں کیا ہے، خود صاحب اسدالغابہ نے بھی ابوموسیٰ کا یہ قول نقل کرکے کہ ان کی روایت کا سلسلہ سند آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک نہیں پہنچتا، ان کے صحابی ہونے میں شک ظاہر کیا ہے؛ بہرحال اس اختلاف رائے کے باعث ان کی صحابیت کی تعیین نہیں ہو سکی اور اسی بنا پرہم نے اس ان کوبجائے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے زمرہ میں شمار کرنے کے تابعین رحمۃ اللہ کی فہرست میں داخل کیا ہے۔ زندگی کے دوسرے حالات دستیاب نہیں ہو سکے۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ (اُسد الغابہ:1/35، شاملہ،موقع الوراق)