اربعین حسینی شہدا کربلا سے تجدید عہد کا عالمی دن
تعارف
ترمیماربعین حسینی در حقیقت امام حسین اور آپ کے باوفا اصحاب و انصار کی المناک شہادت کے چالیسویں کے طور پر باقاعدہ ہر سال منایا جاتا ہے۔اس دن کو منانے کا بنیادی مقصد سید الشہداامام حسین علیہ السلام اور آپ کے اصحاب و انصار سے تجدید عہد کرنا ہے۔اربعین حسینی کو منانے کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی خود واقعہ کربلا کی تاریخ پرانی ہے یعنی سن 61 ہجری سے لے کر آج تک ہر سال باقاعدگی کے ساتھ یہ عبادت انجام دی جاتی ہے ۔
کربلا کا پہلا زائر
ترمیمتاریخ کے مطالعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد پہلا شخص جو آپ کے چلہم کے موقع پر آپ کی قبر کے زیارت کے لیے کربلا پہنچا وہ صحابی رسول اکرم(ص) جناب جابر بن عبد اللہ انصاری تھے۔لہٰذا کہا جاتا ہے کہ جب امام زین العابدین اور زینب کبریٰ کی قیادت میں اسیران کربلا کا لٹا ہوا قافلہ قید سے رہائی کے بعد کربلا پہنچا تو ان سے پہلے جناب جابر بن عبد اللہ انصاری ،جناب عطیہ عوفی اور بنو ہاشم کا ایک گروہ وہاں پر موجود تھا۔اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسیران کربلا کا قافلہ اسی سال یزید کی قید سے رہائی پاکر کربلا پہنچا تھا یا اس واقعے کے دوسرے سال کربلا پہنچا تھا اس سلسلے میں مورخین میں اختلاف ہے بہر حال اکثر مورخین کا یہ ماننا ہے کہ اسیران کربلا کا قافلہ اسی سال یعنی سن 61ہجری ہی کو یزید کے قید سے آزاد ہوکر بلا پہنچا تھا۔اس سلسلے میں معروف محقق شہید آیت اللہ سید محمد علی قاضی طباطبائی نے فارسی زبان میں ایک تحقیقی کتاب لکھی ہے جس کا عنوان ہی ’’ تحقیق در بارہ اول اربعین حضرت سید الشہدا‘‘ ہے ۔ اس کتاب میں انھوں نے اسیران کربلا کے اسی سال کربلا آمدپر کیے گئے بہت سارے سوالات کا جواب دیتے ہوئے یہ ثابت کیا ہے کہ اسیران کربلا کا قافلہ اسی سال چلہم امام حسین کے موقع پر کربلا پہنچاتھا۔بہر حال اس وقت سے لے کر آ ج تک ہر سال امام حسین علیہ السلام سے عقیدت رکھنے والے لوگ چاہے ان کا تعلق کسی بھی دین و مذہب سے کیوں نہ ہو دنیا بھر سے کربلا کا رخ کرتے ہیں اور سید الشہدا امام حسین اور آپ کے اصحاب و انصار کو ان کی اس لازوال قربانی پر خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ان سے تجدید عہد بھی کرتے ہیں ۔[1]
سازشیں
ترمیمدوسری طرف بنوامیہ او ر بنو عباس کے ظالم و جابرحکمرانوں نے بھی صرف امام حسین اورآپ کے ساتھیوں کو اس بے دردی کے ساتھ شہید کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ لوگوں کے دل و دماغ سے اس واقعے کی یاد کو مٹانے کے لیے ہر قسم کے ہٹکنڈے بھی استعمال کیا ہے۔تاریخ میں ملتا ہے کہ انھوں نے اپنے ان ناپاک آزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے کئی بار امام حسین کی ضریح کو ویران کرنے کی نام کام کوششیں بھی کی ہے لیکن یزید سے لے کر صدام حسین تک ہر وقت کا ظالم حکمران اپنے دل میں یہ خواہش لے کر اس دنیا سے چلاگیا لیکن وہ کسی بھی دور میں امام حسین کے عقیدت مندوں کو آپ کی ضریح مبارک تک پہنچنے سے روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے ۔
ایک مشہور واقعہ
ترمیماس سلسلے کا ایک مشہور واقعہ ابراہیم دیزج نقل کرتا ہے کہ :متوکل عباسی بے مجھے کربلا بھیجا اور میرے ہاتھوں جعفر بن محمد قاضی کے نام ایک خط بھی بھیجا جس کا مضمون کچھ اس طرح تھا :میں تجھے اطلاع دیتاہوں کہ میں نے براہیم دیزج کو کربلا بھیجا ہے تاکہ قبر حسین کو ویران کرسکے۔جب تم میرا یہ خط پڑھو تو خبردار رہنا اور ابراہیم کو اپنا کام کرنے دینا۔دیزج کہتا ہے :جعفر بن محمد نے مجھے متوکل کا وہ خط دکھایا۔میں نے بھی جعفر بن محمد کے حکم کی تعمیل کے بعد اس کے پاس پہنچا تو اس نے پوچھا:کیا کیا ؟میں نے کہا میں نے تو اپنی ذمہ داری نبھائی لیکن مجھے وہاں پر کچھ نہ ملا۔کہنے لگا :کیا تم نے قبر کی اچھی طرح کھدائی کیاتھا ؟کہا: جی ہاں لیکن پھر بھی کچھ نہیں ملا۔جعفر بن محمد نے متوکل کے نام خط لکھا :ابراہیم دیزج نے حسین کی قبر کی کھدائی کی لیکن اسے وہاں پر کچھ نہ ملا۔میں نے دیزج کو حکم دیا کہ وہ قبر حسین پر پانی چھوڑے ۔
ابو علی عمّاری کہتا ہے : میں نے اس واقعے کی حقیقت کو خود ابراہیم دیزج سے پوچھا تو اس نے مجھ سے کہا:میں اپنے مخصوص غلاموں کے ساتھ حسین کی قبر کے پاس پہنچا اور اسے کھودا تو دیکھا کہ ایک تازہ ٹاٹ پڑا ہوا تھا جس پر حسین ابن علی کا لاشہ پڑا ہوا تھا جس سے مشک کی سی خوشبو آرہی تھی۔میں نے فوراً حکم دیا کہ اس پر مٹی ڈال کربند کر دیا جائے اس کے بعد میں نے قبر پر پانی چھوڑ دیا اور پھر بیلوں کو منگوایاتاکہ قبر کو مسمار کرتا ہوئے وہاں پر کھیتی باڑی کرسکوں ،لیکن ان بیلوں نے اس زمین پر قدم ہی نہیں رکھا۔جب بھی وہ بیل قبر کے قریب جاتے تھے تو واپس پلٹے تھے ۔[2]
موجودہ حالات
ترمیمسنہ 2003ء میں صدام کی حکومت کے خاتمے کے بعد اس تحریک نے ایک مرتبہ پھر اپنی پوری شدت کے ساتھ زور پکڑنا شروع کیا ہے۔اس وقت ہر سال چہلم امام حسین کے موقع پر دنیابھر سے کروڑوں عقیدت مند کربلا کا رخ کرتے ہیں اور سر زمین نجف سمیت عراق کے دوسرے شہروں سے کربلا کی طرف پیدل مارچ کرتے ہیں۔اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مہدی خطیب صاحب لکھتے ہیں :انسانی تاریخ میں دنیا نے ایک مرتبہ پھر ائمہ معصومین علیہم السلام اور ان کے پیروکاروں کی سیاسی طاقت کا مظاہرہ اس وقت دیکھا جب سن 2003ءکو سید الشہدا امام حسین اور دوسرے شہدا کربلا کے چلم کے موقع پر لاکھوں عزاداروں نے مختلف سواریوں پر سوار اور پیدل سر زمین کربلا کا رخ کیا اور مظلومین کے خون کے انتقام کا عہد کیا اگر اسی طرح کسی دن پورا انسانی معاشرہ ائمہ معصومین کی زندگی میں سیاسی جدوجہد کے عنصر سے آگاہ ہوجائے اس دن دنیا کے ان نام نہاد سیاسی مداریوں ،ظالموں ،ستمگروں اور انسان دشمن عناصر کو سر چھپانے کی بھی جگہ نہیں ملے گی ۔[3]