اربعین حسینی کا تحقیقی جائزہ

تعارف

ترمیم

اس مقالے میں اربعین کے موضوع پر  ایک مختصر جائزہ پیش کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اربعین کا لفظ تاریخ اسلام اور مذہبی کتابوں میں کوئی عجیب لفظ نہیں ہے۔ اگر ہم اسلامی مآخذ پر نظر ڈالیں تو ہمیں اس لفظ  کے استعمال کی بہت سی مثالیں ملیں گی۔

انسانی زندگی پر چالیس کی عدد کا اثر

ترمیم

کہا جاتا ہے کہ انسان کی زندگی میں چالیس کا عدد اس کی عمر کی پختگی  اور بلوغت ذہنی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی عمر بعثت کے وقت چالیس سال تھی۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جو شخص چالیس سال کا ہو جائے اور اس کی نیکی اس کی برائی پر قابو نہ پائے تو اسے جہنم میں جانے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔[1]قرآن میں بیان ہوا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنے  رب سے ہم کلام ہونے کا شرف چالیس دنوں کے بعد حاصل ہوا۔« وَ وَاعَدْنَا  مُوسَی ثَلاثِینَ  لَیْلَةً  وَ أَتْمَمْنَاهَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِیقَاتُ رَبِّهِ أَرْبَعِینَ لَیْلَةً» [2]نیز روایت  میں آیا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام چالیس دن رات کوہ صفا پر سجدہ کرتے رہے۔[3]۔ بنی اسرائیل کے بارے میں بھی مذکور ہے کہ انھوں نے  مل کر چالیس دن رات گریہ و  زاری کی تاکہ ان کی دعائیں قبول ہو سکیں۔[4]پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی حدیث مبارک ہے کہ جو شخص چالیس دن تک خدا کے لیے  اپنی نفس کو خالص رکھے تو خدا  اس کے دل سے اس کی زبان پر حکمت جاری فرماتا ہے۔«مَنْ أَخْلَصَ لِلَّهِ أَرْبَعِینَ یَوْماً فَجَّرَ اللَّهُ یَنَابِیعَ الْحِکْمَةِ مِنْ قَلْبِهِ عَلَی لِسَانِهِ» [5]

یہ بھی روایت ہے کہ جو شخص چالیس دنوں  تک حلال روزی کھاتا  رہے اللہ تعالیٰ اس کے دل کو روشن فر ما دیتا ہے۔ اور روایت ہے کہ جوشخص شراب پیے گا  اس کی چالیس دن تک نماز قبول نہیں ہوگی۔ نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے فرمایا: جس نے حرام لقمہ کھایا، اس کی چالیس دن تک نماز قبول نہیں ہوگی۔[6] اس سلسلے میں بہت سی روایات موجود ہیں۔جو کچھ بیان ہوا اس کے مطابق اربعین کا موضوع انبیا و مرسلین اور عام لوگوں کی زندگی اور تاریخ میں ایک خاص مقام رکھتا ہے اور اس کی مثالیں اس سے کہیں زیادہ ہیں کہ ان کو  اس مقالے میں سمایا جاسکے۔

اربعین حسینی ائمہ اہل بیت کی نظر میں

ترمیم

اربعین حسینی، عاشقان رسول اور اہل بیت کی نظر میں ایک خاص مقام رکھتی ہے۔ فرزند  رسول اسلام  (ص) امام حسن عسکری علیہ السلام کی ایک روایت میں زیارت اربعین کو  ایمان کی نشانیوں میں سے ایک نشانی بتایا گیا ہے۔ درحقیقت زیارت  اربعین، امام حسین (ع)  اور  اہل بیت علیہم السلام کے ساتھ تجدید عہد کی ایک قسم ہے۔زیارت اربعین کو انجام دینا، امام حسین علیہ السلام  اور  ان کے مشن و ہدف سے وفاداری اور ہر زمانے میں ان کے قاتلوں اور دشمنوں سے بے زاری کا  اظہا رہے۔ اور یہ عمل،  انصاف اور  آزادی کی خاطر  جان دینے کے لیے تیار  رہنے کا   اعلان ہے  اور کسی بھی زمان و مکان میں حق و باطل اور نور و ظلمت کے علمبردار  چہروں کو پہچاننے کی کوشش ہے۔ یہ تمام موضوعات زیارت اربعین میں بیان کیے گئے ہیں، اورحسینی زائر،  ان عقائد کو اپنے دل سے زبان پرجاری کرتا ہے، تا کہ قلبی عقیدت کی پختگی  کے ساتھ معاشرے  میں اس  کے برملا  اظہار   کے مواقع فراہم ہوجائیں۔ احادیث میں خاص طور پر امام حسین(ع) کی زیارت اربعین  کے لیے پیدل جانے کی بہت تاکید کی گئی ہے کہ اس کی ایک مثال درج ذیل روایت میں  بیان کی گئی ہے۔

امام صادق علیه السلام نے فرمایا:«مَنْ أَتَی الْحُسَینَ (علیه السلام) مَاشِیاً کتَبَ اللَّهُ لَهُ بِکلِّ خُطْوَةٍ أَلْفَ حَسَنَةٍ وَ مَحَا عَنْهُ أَلْفَ سَیئَةٍ وَ رَفَعَ لَهُ أَلْفَ دَرَجَةٍ فَإِذَا أَتَیتَ الْفُرَاتَ فَاغْتَسِلْ وَ عَلِّقْ نَعْلَیک وَ امْشِ حَافِیاً وَ امْشِ مَشْی الْعَبْدِ الذَّلِیلِ فَإِذَا أَتَیتَ بَابَ الْحَیرِ فَکبِّرِ اللَّهَ أَرْبَعاً؛[7]"جو شخص پیدل قبر حسین علیہ السلام کی زیارت کے لیے جائے گا اللہ تعالیٰ ہر قدم کے بدلے ہزار نیکیاں لکھے گا اور اسے  ہزار گناہوں سے پاک کرے گا اور اس کے درجات ہزار مرتبہ  بلند ہوں گے۔ پس جب تم فرات پر پہنچو تو غسل کرو اور جوتے اتار دو  اور   ایک حقیر بندے کی طرح ننگے پاؤں چلو۔ جب حرم کے دروازے پر پہنچو تو چار مرتبہ تکبیر کہو  اور تھوڑا چل کر دوبارہ چار مرتبہ تکبیر کہو"۔

قرآن پاک کی جس آیت میں لوگوں کو حج کرنے کی ترغیب  دی گئی ہے  اس میں «رِجالاً؛ پیاده» کا  لفظ  آیا ہے؛ «وَ أَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَأْتُوکَ رِجالاً وَ عَلی کُلِّ ضامِرٍ یَأْتینَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمیقٍ؛[8]۔ "اور لوگوں میں حج کا اعلان کرو، تاکہ لوگ تمھارے پاس پیدل اور دبلے پتلے اونٹوں پر دور و دراز سے آجائیں"۔ اس آیت میں پیادہ  کا ذکر سوار سے پہلے آجانا اس کی برتری کی علامت ہے کہ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس ان دو صفات کے ساتھ(پیدل یا سواری پر) آجائیں۔[9]پس آیت کریمہ کے مطابق حج انجام دینے کی خاطر حضرت ابراہیم( ع) کے گرد جمع ہونے کے لیے پیدل چل کر جانا  قرآن کریم سے ثابت ہے اور یہ ایک خاص قرآنی دستور ہے۔ اس آیت سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ حج کے فریضے کو  خدا  کے ولی کے محور کے گرد  انجام  دینا ضروری ہے۔امام حسین علیہ السلام سے عقیدت اور ان کے سرخ انقلاب کو  ظلم و ستم  کے خلاف  نمونہ عمل بنانے کی تاکید دنیا  کے عظیم قائدین اور دانشمندوں کے بیانات اور ان کے طرز عمل میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔

پاکستان کی تحریک آزادی پر عاشوراکے اثرات

ترمیم

پاکستان کی تحریک آزادی میں انقلاب عاشورا   نے خصوصی کردار ادا کیا۔ پاکستان کے عظیم رہنما، محمد علی جناح کہتے ہیں: "میری رائے میں، تمام مسلمانوں کو شہید  راہ حق حضرت  امام حسین علیہ السلام کی پیروی کرنے کی ضرورت ہے جنھوں نے سرزمین عراق میں اپنے  آپ کواسلام پر قربان کر دیا" اور  ایک سنی عظیم مفکرعلامہ   اقبال لاہوری جو ایرانیوں اور غیر ایرانی شیعوں  میں بہت مقبول ہیں،  نہ صرف امام حسین(ع)  اور کربلا  کے بارے میں مشہور نظمیں لکھی ہیں بلکہ انھوں نے پاکستان   آزادی  کو انقلاب عاشورا  کی مرہون منت سمجھا ہے۔ علامہ  اقبال لاہوری امام حسین علیہ السلام  اور  انقلاب  عاشورا   کے فلسفے کو بیان کرتے ہوئے ایک بہت ہی خوبصورت نظم لکھی ہے  جس میں آپ فرماتے ہیں: "ہم نے حسین سے قرآن کا ضابطہ سیکھا ہے "

امام حسین علامہ اقبال کی نظر میں

ترمیم

آن امام عاشقان، پور بتول

سرو آزادی ز بستان رسول

الله الله   بای    بسم الله،      پدر

معنی ذبح عظیم،         آمد     پسر

۔.۔.۔

رمز قرآن  از حسین  آموختیم

ز آتش او شعله        ها           افروختیم

تار ما از زخمه اش لرزان   هنوز

تازه از تکبیر           او            ایمان     هنوز

ای صبا! ای پیک دور   افتادگان

اشک ما بر خاک پاک او رسان

اولیا ئے الٰہی کے قبور کی زیارت علمائے اہل سنت کی نظر میں

ترمیم

شیعوں کے علاوہ، اہل سنت علماءبھی قبروں، خاص طور پر پیغمبر اور  اولیای کرام کی قبروں کی زیارت پر یقین رکھتے تھے، ۔ یہ مسئلہ مختلف سنی روایات کی  کتابوں میں مذکور ہے، جیسے کہ کتاب «موسوعة الفقیة الکویتیہ» میں سنی فقہی   کے  آراء اس موضوع کے بارے میں موجود ہیں جو عصر حاضر کے سنی علما کی نظر میں قابل قدر ہے کیونکہ یہ کتاب ایک سنی فقہی انسائیکلوپیڈیا کی حیثیت رکھتی ہے۔  اس کتاب میں زیارت سے متعلق درج ذیل باتیں بیان کی گئی ہیں:«ذهب جمهور العلماء إلى أنه يجوز شد الرحل لزيارة القبور، لعموم الأدلة، وخصوصا قبور الأنبياء والصالحين ومنع منه بعض الشافعية، و ابن تيمية من الحنابلة؛[10] جمہور علما  اہل سنت زیارت کے لیے سفر کو جائز سمجھتے ہیں۔ کیونکہ شواہد کی عمومیت سفر کے جائز ہونے پر دلالت کرتی ہے، خصوصاً انبیا(ع)   اور صالحین کی قبروں کی زیارت کے لیے سفر کرنا یقیناً جائز ہے۔

اس کتاب میں زیارت کے بارے میں درج ذیل بیان کیا گیا ہے: بڑے سنی علما حج کے لیے سفر کو جائز سمجھتے ہیں۔ کیونکہ شواہد کی عمومیت سفر کے جائز ہونے پر دلالت کرتی ہے، خصوصاً نبی اور صالحین کی قبروں کی زیارت کے لیے سفر کرنا، ان کی زیارت کے لیے سفر کرنا یقیناً جائز ہے۔ نیز بہت سے اہل سنت علما نے کربلا کے واقعات کو نقل کیا ہے جیسا کہ ابن الجوزی نے اپنی کتاب میں عاشورہ کے دن پیش آنے والے واقعات و حوادث کو سوگ کی صورت میں بیان کیا ہے۔[11]ان مصائب  کوبیان کرتے ہوئے کچھ افراد نے گریہ  بھی کیا ہے۔ مثال کے طور پر عاشورہ کے دن دمشق کے لوگوں نے سبط بن الجوزی سے کہا کہ وہ منبر پر چڑھ کر امام حسین کی شہادت کے بارے میں بتائیں۔ اس نے قبول کر لیا۔ پھر منبر پر تشریف لے گئے اور ایک طویل خاموشی کے بعد منہ پر رومال رکھ کر رونے لگے اور روتے ہوئے آپ نے ایک نظم کے دو اشعار پڑھے جن کا مفہوم کچھ یوں ہے:

"افسوس ہے اس شخص کے لیے جس کا شفاعت کرنے والا قیامت کے دن اس کا دشمن ہو، آخر کار قیامت کے دن فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا محشر میں داخل ہوں گی جب کہ ان کی قمیص حسین کے خون سے رنگی ہوئی ہو گی۔" پھر وہ منبر سے نیچے اترے اور روتے ہوئے اپنے گھر چلے گئے[12]

معتبر سنی ذرائع میں بتایا گیا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا    اپنے بھائی عبد الرحمن کی قبر پر جاتی تھیں۔ ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں: میں نے ایک دن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  کو قبروں کی زیارت کے لیے گھر  سے نکلتے دیکھا۔ میں نے ان سے پوچھا، کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی زیارت سے منع نہیں کیا تھا؟  انھوں نے کہا ہاں منع کیا تھا لیکن بعد میں آپ نے قبروں کی زیارت کا حکم دیا تھا۔ [13]وہابی عظیم، البانی نے اس روایت کی سند کی تصدیق کی ہے۔ حتیٰ کہ ان روایات کی بنا پر انھوں نے نے قبروں کی زیارت کا جواز بھی بیان کیا ہے۔[14]

کچھ حنبلی فقہا  کے نزردیک قبروں کی زیارت کے لیے سفر کرنا جائز ہے۔ ابن قدامہ نے اس کی وجہ یہ بتائی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیدل یا گھوڑے پر سوار ہو کر قبا تشریف لے جاتے اور قبروں کی زیارت کرتے اور فرماتے تھے: "قبروں کی زیارت کے لیے آؤ۔ کیونکہ یہ عمل  آپ کو آخرت کی یاد دلاتا ہے۔»[15]قابل ذکر ہے کہ اس روایت میں یہ بھی مذکور ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم زیارت قبور کے لیے پیدل گئے تھے۔ حصنی دمشقی (نویں صدی ہجری کے ایک عالم) لکھتے ہیں: رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قبر منور کی زیارت کرنا مسلمانوں میں ایک عام روایت تھی اور لوگ ہمیشہ حضرت ابراہیم اور موسیٰ (علیہما السلام) کی قبور شریف کی زیارت کرنے کے لیے، مختلف جگہوں سے تشریف لے جاتے تھے۔[16]

چنانچہ مسلمانوں میں قبروں کی زیارت کرنا ایک مسلم اور رایج عمل تھا۔ قابل غور ہے کہ اہلِ قبور کی زیارت جائز ہو لیکن نورِ چشم رسالت امام حسین کی زیارت کرنا جائزنہ ہو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو میری وفات کے بعد میری زیارت کرے وہ اس شخص کی طرح ہے جس نے میری حیات میں میری زیارت کی۔[وفاء الوفا، ج 4، ص 1347]؛ نیز آپ نے فرمایا حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں۔[17]چھٹی صدی  شیعہ عالم، عبد الجلیل رازی قزوینی، اپنی مشہور کتاب "مثالب النواصب فی نقض بعض فضائح الروافض»امام حسین (ع) کے لیے سنیوں کے ماتم کے متعدد شواہد پیش کیے ہیں، جن میں سے کچھ یہ ہیں: امام حسین (ع) اور شہدائے کربلا کے بارے میں امام شافعی نے مرثیے لکھے ہیں۔ نیز امام ابو حنیفہ اور امام شافعی کے پیروکاروں کے توسط سے لکھے گئے مرثیوں کی تعداد حد سے زیادہ ہے۔ اصفہان میں یوم عاشورہ پر مشہور شافعی عالم خواجہ بومنصور سوگ مناتے تھے؛ اسی طرح بغداد میں حنفی معروف عالم خواجہ علی غزنوی عاشورہ کے دن نہ صف سوگ مناتے تھے بلکہ امام حسین کے قاتلوں پر لعنت بھی بھیجتے تھے۔ اگرچہ یہ شہر خلافت عباسیہ کا مرکز تھا، ہمدان میں شافعی عالم دین مجدالدین ہمدانی کی عزاداری پر قم کے شیعہ تعجب کرتے تھے۔ نیشابور میں خواجہ امام ابوالمعالی بن ابی القاسم بزاری حنفی امام مظلوم کی  عزاداری کرتے تھے۔اسی طرح عاشورہ  کے دن ابو منصور حفدہ شافعی، حنفی علما میں سے خواجہ محمد حدادی، نیز سنی علما میں سے شیخ ابوالفتوح نصرآبادی اور خواجہ شرف الائمہ ابو نصر ھسنجانی کا ماتم اور قاتلین امام حسین پر ان کی لعنت بھیجنے کا  تذکرہ موجود ہے؛ نیز  یہ تذکرہ بھی ہے کہ جامع مسجد طغرل میں بیس ہزار لوگوں کی موجودگی میں ساوہ کے قاضی عمده الدین حنفی ننگے سر امام حسین کی سوگواری کرتے ہوئے اپنا لباس چاک کرتے تھسنی تاجکوں میں، مرثیہ خوانی کا  رواج عام ہے اور یہ  رسم صرف یوم عاشورہ  کے لیے مخصوص نہیں ہے۔ سال کے تمام موسموں میں خصوصاً بی بی سہ شنبہ (بی بیمنگل)  کے نام سے موسوم خواتین کی تقریبات  میں  یہ مخصوص اشعار  پڑھے جاتے ہیں۔ ان محفلوں میں پڑھی جانے والی ایک مثنوی ہے جو  ایک   ازبک سنی شاعر صیقلی حصاری نے لکھی ہے:

گر هواخواه حسینی ترک سر کن چون حسین                  شرط این میدان به خون خویش بازی کردن است

از     حریم       کعبه   کمتر            نیست          دشت کربلا                   صد شرف دارد بر آن وادی که گویند ایمن    است

سنی‌ام سنی       و             لیکن       حب              آل   مصطفی                   دین و           آیین من و                آبا            و اجداد          من           است

شیعه    و         سنی  ندانم       د و  ستم    با هر       که        او                      دوست باشد دشمنم آن را که با       او            دشمن است۔

نیز قدیم خراسان میں سنی تیموری حکمرانوں کے دور(782 سے 911 تک) میں امام حسین (ع) کے لیے ماتمی اجتماعات کا تذکرہ موجود ہے: چنانچہ مورخین رقم طراز ہیں کہ ہر سال جب محرم کا مہینہ آتا تھا  تو اہل بیت کے چاہنے والوں کا ایک گروہ شہداء کی یاد کو تازہ کرتا تھا  اور اشکبار آنکھوں اور غمژدہ دلوں کے ساتھ رسول خدا  کے اہل بیت کے غم میں تعزیت پیش کرتا تھا۔ عظیم خراسان میں ماتمی اجتماعات شیعوں کے لیے مختص نہیں تھے  بلکہ  سنی بھی امام حسین علیہ السلام کے لیے ماتم کرتے تھے اور تیموری دربار میں بھی ماتمی  اجتماعات منعقد کیے جاتے تھے۔ تیموریوں کی حکومت کے مرکز ہرات میں امام حسین علیہ السلام کے مصائب کے لیے ماتمی اجتماعات بہت زیادہ ہوتے تھے اور واعظ کاشفی اس شہر میں ماتمی اجتماعات سے خطاب کرتے تھے۔ کتاب روضۃ الشہداء ملا حسین واعظ کشفی (910) نے لکھی ہے،  جو   بظاہر سنی صوفیا میں سے تھے    اور نقشبندیہ    کے پیروکار تھے۔  ان کے ایک سنی طالب علم، جن کا نام محمود واصفی تھا،  اپنے استاد کی وفات کے بعد نیشابور تشریف لے گئے اور نیشا پور کے لوگ، جو اس وقت زیادہ تر سنی تھے، ان سے کاشفی کے انداز میں مجلس پڑھنے کی التجا کی۔ کاشفی کے انداز میں ان کے خطابت کو زبردست پزیرائی ملی۔

نتیجہ یہ ہے کہ؛ مسلمانوں میں زیارت اور ماتم کا عام رواج رہا ہے۔ یہاں تک کہ بعض اہل سنت نے بھی اپنے علما کا ماتم کیا ہے۔ ان میں  امام احمد ابن حنبل کے جنازے پر ماتم [البدایه و النهایه، ابن کثیر، ج 10 ص 342]؛  اور ابن تیمیہ کے فوت ہونے پر لوگوں کا ماتم کا بھی ذکر موجود ہے[الاعلام العلیه فی مناقب ابن تیمیه، ص 617]۔ دوسری طرف پیدل زیارت پر جانے کت حوالے سے بعض روایات اور حتیٰ کہ قرآن کے حوالہ جات سے بھی استفادہ کیا جا سکتا ہے جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔

گذشتہ دہائیوں اور عصر حاضر میں زیارت اربعین

ترمیم

چودھویں صدی کے آخر اور 15ویں صدی کے اوائل میں، عراقی بعث پارٹی نے اربعین کے دن عراقی عوام کی زیارت اور جلوسوں پر پابندی لگا دی تھی، جس کی وجہ سے یہ زیارت جوش و خروش کے ساتھ انجام نہیں دی جا سکتی تھی۔ اس دوران حکومت کے اس اسلام دشمن اقدام کا مقابلہ کرنے کے لیے آیت اللہ شہید سید محمد صدر نے پیدل زیارت اربعین کو واجب قرار دیا۔ شہید آیت اللہ سید محمد باقر حکیم نے بھی لوگوں کو زیارت اربعین کی ترغیب دلانے اور عراقی حکومت  کے اس حکم کو عوام کے ذریعے مسترد کرنے کے لیے بہت کوششیں کیں۔  امام خمینی (رح) نے بھی لوگوں کو  اس عمل میں ترغیب  دینے کی  کافی کوشش کی۔  اس کے نتیجے میں نجف کے لوگوں نے 15 صفر 1398 ہجری کو اجتماعی زیارت کا فیصلہ کیا اور دسیوں ہزار افراد قافلوں کی شکل میں کربلا کی طرف روانہ ہوئے۔ حکومتی افواہج نے پہلے اس شاندار قافلے کا سامنا کر کے متعدد زائرین کو شہید کیا اور آخر کار نجف سے کربلا جاتے ہوئے لوگوں پر حملہ کر کے ہزاروں افراد کو گرفتار کر لیا۔ 2003 میں صدام حسین  کے زوال کے بعد اربعین کا جلوس بڑی شان و شوکت کے ساتھ دوبارہ شروع ہوا اور اس کی تعداد میں سال بہ سال اضافہ ہوتا گیا، جس کی وجہ سے آج  ایک اندازے کے مطابق زائرین کی تعداد لاکھوں تک جا پہنچی ہے۔ موجودہ دور میں یہ زیارت دنیا کے سب سے عظیم ترین اجتماع کی حیثیت حاصلی کرچکی ہے۔

ان لاکھوں زائرین کی خدمت کی ذمہ داری دریائے فرات کے کنارے اور ملک کے دیگر خطوں میں واقع عراقی عوام اور قبائل کی ذمہ داری ہے جو عراقی زائرین اور دنیا کے دیگر ممالک کے زائرین کا استقبال کرنے کے لیے متعدد کیمپ لگاتے ہیں۔ زائرین کی مہمان نوازی اور دیگر تمام خدمات ھکومت کی مدد کت بغیر رضا کارانہ طور پر مفت فراہم کی جاتی ہیں ؛ جس سے ایک طرف ان لوگوں کے خاندانِ رسالت کے لیے عشق اور محبت کی گہرائی کا پتہ چلتا ہے اور دوسری طرف انسانی خدمت کا بھر پور مظاہرہ سامنے آتا ہے۔ یہ اقدامات مختلف مسلمان قومیتوں کے درمیان  جذباتی بندھن کو مضبوط کرتا ہے۔ البتہ   ان عراقی خدماتی سرگرموں  کے ساتھ ساتھ پاکستانی، ایرانی، ترکی، کویتی، آذربائیجانی، افغانی   اور   یورپی مسلمان بھی زائرین  کی   خدمت میں  شانہ     بہ  شانہ شامل ہوتے ہوتے ہیں۔ ان امدادی کیمپوں میں زائرین اربعین حسینی کے لیے، قیام  و     طعام،  ابتدائیی طبی  امداد   اور    دیگر  ضروری سہولیات  فراہم کی جاتی ہیں

آخری بات

ترمیم

واقعہ کربلا کی یاد منانا صرف عاشورہ کے دن کے تذکرہ کے لیے مخصوص نہیں جو ختم ہوجائے اور اربعین کی زیارت صرف حضرت سید الشہداء کی زیارت تک محدود نہیں؛ بلکہ حضرت امام سید سجاد(ع)، بی بی زینب سلام الله علیھا اور اہل بیت عصمت و طهارت علیهم السلام کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کرنا ہے۔ جنھوں نے اسیر ہونے کے باوجود آزادی اور حریت کا پیغام دنیا کے لوگوں تک پہنچایا۔ زیارت اربعین میں ایک جملہ ہے جو امام حسین(ع)کی شہادت کے مقصدکو واضح طور پربیان کرتاہے:"بَذَلَ مُهْجَتَهُ فِیکَ لِیَسْتَنْقِذَ  عِبَادَکَ  مِنَ الْجَهَالَهِ  وَ حَیْرَۃالضَّلَالَهِ "  امام(ع) نے اس لیے شھادت پیش کی تاکہ لوگ قیامت تک حق و باطل اور ظلمت و روشنی میں تمیز کرسکیں، تاکہ انسان ظلم، جہالت اور غفلتوں کے اندھیروں میں مبتلا نہ ہوں اور انسانیت اور آگہی کی زندگی گزارسکیں۔ انسان جس راستے پر بھی چلے، روشنی کو  اندھیرے  کے ساتھ اور سچ کو باطل کے ساتھ برابر نہ سمجھے۔ مجھے امید ہے کہ امام حسین(ع) کی محبت عالم اسلام کی کفر پر فتح کے لیے امت اسلامیہ کی مربوط کڑی ثابت ہوگی۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. ارشادالقلوب، ج 1، ص 185، باب 51 
  2. القرآن، سورہ اعراف، آیت142 
  3. مستدرک وسائل، ج 9، ص 329 
  4. ایضاً، ج 5، ص 239 
  5. بحار الأنوار، ج 67، ص: 213 
  6. مستدرک وسائل، ج 5، ص 217 
  7. کامل الزیارات، ص 255 
  8. القرآن، سوره حج، آیه 27 
  9. مفاتیح الغیب، ج 23، ص 220 
  10. الموسوعة الفقهيةالكويتية، وزارۃ الأوقاف والشئون الإسلامية- الكويت، الطبعة الأولى، مطابع دار الصفوة- مصر، ج24، ص89 
  11. التبصیره، ج 2، ص 5-17 
  12. البدایہ و النہایہ، ابن کثیر، ج13، ص 227 
  13. سنن ابن ماجہ، ج2، ص511 
  14. المنهج السلفی عند الشیخ ناصر الدین البانی، ص 31-31]۔ ابن قدامه (م 620) 
  15. المغنی، ج 2، ص 104 
  16. دفع الشبه، ص 181 و 182 
  17. ابن ابی شیبه، ج 6، ص 380