اسلامی فقہ میں اساءت کی اصطلاح سنت مؤکدہ کے بالعکس ہے۔ یہ ایسے اعمال ہیں جن کی ممانعت پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تاکید فرمائی ہے۔ ان اعمال کے کرنے کی عادت قابل ملامت و مذمت ہے، جبکہ کبھی کبھار عمل کرنا کرنے پر معافی ہے۔ اساءت : یہ سنت مؤکدہ کو دائما ترک کرنا اور اس پر اصرار کرنا ہے اور یا دائماً سنت مئوکدہ کے خلاف کام کرنا ہے، اس پر دوام کرنا موجب استحقاق عذاب ہے اور احیاناً کرنا موجب استحقاق ملامت ہے۔ نماز میں سنت کو ترک کرنا نماز کے فساد یا سجدہ سہو کو واجب کو ترک کرنے سے سجدہ سہو واجب ہوتا ہے۔ بہ شرطیکہ عمداً سنت کو ترک کیا جائے (اور اگر غیر عمد کے بھولے سے سنت کو ترک کیا تو پھر یہ اساءت نہیں ہے بلکہ اس صورت میں نماز کو دہرا لینا مستحب ہے۔ اور سنت کو ترک کرنے والا سنت کے استحفاف (سنت کم یا معمولی چیز سمجھے) کی نیت سے اس کو ترک نہ کرے ( اور اگر اس نے سنت کے استحفاف کی نیت سے سنت کو ترک کیا تو اس کی تکفیر کی جائے گی، جیسا کہ النہرا لفائق میں مذکور ہے اور فتاویٰ بزازیہ میں مذکور ہے کہ اگر وہ سنت کو حق نہیں سمجھتا تب بھی اس کی تکفیر کی جائے گی کیونکہ سنت کو حق نہ سمجھنا بھی سنت کا استحفاف ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ سنت ان احکام شرعیہ میں سے ایک حکم ہے جن کے مشروع ہونے پر علما دین کا اتفاق ہے اور جو شخص سنت کو، کوئی ثابت چیز نہ سمجھے اور دین میں معتبر نہ سمجھے تو وہ سنت کا استحفاف کرتا ہے اور سنت کا استخفاف اور اس کی توہین کفر ہے۔ شامی) اور فقہا نے کہا اساء ت، کراہت سے کم درجہ کا حکم ہے۔[1]

تحقیق یہی ہے کہ اساءت کراہت سے کم ہے یہی التقریر الاکملی میں مذکور ہے، لیکن ابن نجیم نے شرح المنار میں یہ تصریح کی ہے کہ اساءت کراہت سے زیادہ سنگین اور بری چیز ہے اور تحریر میں مذکور ہے کہ سنت کا تارک اساءت کا مستحق ہے یعنی کم راہ قرار دیے جانے اور ملامت کا اور ان عبارات میں اس طرح موافقت ہے کہ تحریر میں جو مذکور ہے اس سے مراد مکروہ تحریمی ہے اور شرح المنار میں جو مذکور ہے کہ اساءت کراہت سے زیادہ سنگین اور بری چیز ہے اس سے مراد کرہت تنزیہی ہے، بس اساءت مکروہ تحریمی سے کم درجہ کی چیز ہے اور مکروہ تنزیہی سے بڑے درجہ کی چیز ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ اصول ابی الیسر میں مذکور ہے کہ سنت پر عمل کرنا مستحب ہے اور اس کے ترک کرنے پر ملامت کی جائے گی اور تھوڑا سا گناہ ہوگا، اسی وجہ سے البحر الرائق میں مذکور ہے کہ فقہا کے کلام سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ گناہ واجب یا سنت مئوکدہ کے ترک کرنے سے ہوتا ہے، کیونکہ ففقہاء نے یہ تصریح کی ہے کہ پانچ وقت کی نمازوں کیسنتوں کو ترک کرنا گناہ ہے اور انھوں نے یہ بھی تصریح کی ہے کہ جماعت کو ترک کرنا گناہ ہے، حالانکہ صحیح قول کے مطاق جماعت بھی سنت مئوکدہ ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بعض گناہ بعض گناہوں سے زیادہ ہوتے ہیں پس سنت مئوکدہ کے ترک کا گناہ واجب کو ترک کرنے کے گناہ سے کم ہے، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ بھی سنت مئوکدہ کے ترک کرنے سے گناہ ہوگا اور شرح التحریر میں یہ لکھا ہے کہ اساءت سنت مئوکدہ کو بلاعذر رودام اور اصرار کے ساتھ ترک کرنا ہے، اسی طرح الخلاصہ میں لکھا ہے کہ اگر ایک بار اعضاء وضو کو صرف ایک ایک بار دھویا تو حرج نہیں اور اگر اس کو عادت بنا لیا تو گناہ گار ہوگا، اسی طرح الکشف میں مذکور ہے کہ امام محدم نے کہا جو سنت مئوکدہ کے ترک پر اصرار کرے اس سے قتال کیا جائے گا اور امام ابویوسف نے کہا اس کو تعزیر دی جائے گی اس سے متعین ہو گیا کہ اساءت کی تعریف میں جو سنت کو ترک کرنا لکھا ہے اس سے مراد سنت مؤکدہ کو دوام اور اصرار کے ساتھ ترک کرنا ہے تاکہ فقہا کی عبارات میں تطبیق ہو۔[2]

حوالہ جات ترمیم

  1. الدرا المختار و ردالمحتارج 2 ص 150، داراحیاء التراث العربی بیروت۔
  2. ردالمحتارج 1 ص 150 داراحیاء التراث العربی بیروت