تعریف:

اسباب نزول سے مراد وہ واقعات، حوادث اور سوالات ہیں جو کسی آیت یا چند آیات کے نزول کا باعث بنے۔ مثلاً قریش نے آنحضرتﷺسے روح، اصحاب کہف اور ذوالقرنین کے بارے میں پوچھا تو ان کے جواب میں سورۃ کہف نازل ہوئی۔ ایسا بھی ہوا کہ آنحضرت ﷺ یا صحابہ ؓ کے دل میں کوئی خیال آیا اور جلد ہی اس کے مطابق کوئی آیت یا آیات نازل ہو گئیں او روہ آرزو ان کا سبب نزول بن گئی۔ مثلاً: آپ ﷺ کا بار بار آسمان کی طرف چہرہ مبارک کو کرنا تاکہ قبلہ تبدیل ہوجائے اور پھر قبلہ تبدیل ہو گیا۔ سیدنا عمر ؓ نے نبی اکرم ﷺ سے عرض کی:یا رسول اللہ! اگر ہم مقام ابراہیم کو مصلی بناتے تو اچھا ہوتا۔ اسی وقت آیت

{وَاتَّخِذُوْا مِن مَّقَامِ إِبْرَاہِیْمَ مُصَلًّی} (البقرۃ:125)

نازل ہوئی۔


سبب نزول کی بنیاد پر آیات کی تقسیم:

سبب نزول کی بنا پر قرآنی آیات کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔

 وہ آیات جو بغیر کسی سبب کے نازل ہوئیں۔ مثلاً: انبیا کے قصے، مستقبل کے واقعات، قیامت کی منظر کشی اور عذاب وثواب کے ذکر پر مشتمل آیات۔ قرآن مجید کا غالب حصہ انہی آیات کا ہے۔ مثلاًًاللہ تعالی کا یہ ارشاد

{وَمِنْہُمْ مَّنْ عٰہَدَ اللّٰہَ لَئِنْ اٰتٰنَا مِنْ فَضْلِہٖ لَنَصَّدَّقَنَّ وَلَنَکُوْنَنَّ مِنَ الصّٰلِحِیْنَں} (التوبۃ:75) یہ آیت کچھ منافقین کے حالات بیان کرنے کے لیے شروع میں نازل ہوئی۔

وہ آیات جن کے نزول کا کوئی نہ کوئی سبب تھا۔ مثلاً:

احکام و اخلاقیات کی زیادہ تر آیات۔اس سبب میں:

٭ … یا تو کوئی سوال ہوتا جس کا جواب اللہ تعالی مرحمت فرماتے جیسے: {یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْاَہِلَّۃِقُلْ ہیَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجَِ} (البقرۃ:189)

لوگ آپ سے چاند کی گھٹتی بڑھتی صورت کے بارے میں پوچھتے ہیں؟کہئے کہ یہ لوگوں کے مقرر اوقات کے لیے اور حج کے لیے ہیں۔

٭… یا نزول کا سبب کوئی حادثہ ہوتا مگر اس کے لیے وضاحت وتنبیہ کی ضرورت ہو تی ہے۔امام ابن کثیرؒ فرماتے ہیں:

{وَلَئِنْ سَاَلْتَہُمْ لَیَقُوْلُنَّ اِنَّمَا کُنَّا نَخُوْضُ وَنَلْعَبُ}(التوبۃ:65)

منافق شخص کے بارے میں یہ آیات اتریں جس نے غزوہ تبوک میں کسی محفل میں یہ زبان درازی کی: ہم نے پیٹ کا شوقین، زبان کا جھوٹا اور وقت لڑائی انتہائی بزدل انسان اپنے ان قراء جیسا کسی کو نہیں پایا۔اس کی مراد رسول اللہ ﷺ اور صحابہ رسول تھے۔آپ ﷺ کو جب اس کا علم ہوا تو یہ منافق معذرت کرتا ہوا حاضر ہوا تو آپ ﷺ کی طرف سے اللہ تعالی نے یہ جواب دیا:

{قُلْ اَبِاللّٰہِ وَاٰیٰتِہٖ وَرَسُوْلِہٖ کُنْتُمْ تَسْتَہْزِئُ وْن ں} (التوبہ:65)

٭… یا کوئی ایسا کام ہوا ہو جس کا حکم معلوم نہ ہو ۔ جیسے:

{قَدْ سَمِعَ اللّٰہُ قَوْلَ الَّتِیْ تُجَادِلُکَ فِیْ زَوْجِہَا وَتَشْتَکِیْٓ اِلَی اللّٰہِِقصلے وَاللّٰہُ یَسْمَعُ تَحَاوُرَکُمَاط اِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌمبَصِیْرٌ }(المجادلۃ:1)

یقیناً سن لی اللہ نے اس عورت کی بات جو اپنے خاوند کے بارے میں آپ سے جھگڑ رہی تھی اور اللہ کی جناب میں وہ شکایت کررہی تھی اور اللہ تم دونوں کی گفتگو کو سن رہا تھا بیشک اللہ تعالی سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔

ق

قرآن 23 سال کے عرصہ میں تھوڑا تھوڑا کر کے نازل ہوا۔ جو اکثر حالات و واقعات کے مطابق ہوتا تھا۔ قرآن کی موجودہ ترتیب وہ نہیں ہے جس سے یہ نازل ہوا تھا۔ جن حالات و واقعات، اعتراضات و استفسارات وغیرہ کے جواب میں قرآن کا جو حصہ نازل ہوا۔ وہ وجہ یا سبب ہی ان آیات یا سورہ یا سبب نزول کہلاتا ہے۔ جو عام طور پر سبب کی جمع اسباب کے ساتھ بطور اصطلاح بولا اور لکھا جاتا ہے۔

مفسرین کی اصطلاحات ترمیم

  • اسباب نزول کا بیان کرتے ہوئے مفسرین مندرجہ ذیل اصطلاحات استعمال کرتے ہیں۔
  • فی کذا اس بارے میں
  • نزلت فی کذا اس بارے میں نازل ہوئی
  • فانزل اللہ تعالٰی پس اللہ تعالٰ نے نازل فرمایا
  • فنزلت پس نازل ہوئی

فی کذا کی اصطلاح صحابہ اور تابعین کے دور میں اسباب نزول کے علاوہ دوسرے مواقع پر بھی استعمال ہوتی رہی ہے۔ وہ اس اصطلاح کو دور رسالت میں واقع ہونے والے کسی ایک واقعہ کے لیے بھی استعمال کیا کرتے تھے۔ جن پر آیت صادق آتی تھی۔ بعض دفعہ جب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے سوال پیش کیا جاتا یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں کبھی کوئی خاص واقعہ ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے مواقع پر قرآن کی کسی آیت سے کوئی حکم مستنبط فرمایا تو ساتھ ہی اس آیت کی تلاوت بھی فرما دی، صحابہ اس طرح کے مواقع پر بھی وہی اصطلاح استعمال کرتے تھے اور اس قسم کے واقعات بیان کرتے ہوئے کہا کرتے تھے نزلت فی کذا اس بارے میں نازل ہوا۔

مفسرین اسباب نزول بیان کرتے وقت کئی قسم کے امور پیش کرتے ہیں۔

  • آیت کے نازل ہونے سے پہلے کونسا واقعہ پیش آیا؟
  • یہ آیت کسی خاص شخص یا قوم کے حق میں یا مذمت میں نازل ہوئی۔
  • یہ آیت نازل ہونے سے پہلے فلاں مسئلہ زیر بحث تھا۔
  • یہ آیت کسی صحابی نے فلاں واقعہ، شخص یا مسئلہ سے منسوب کی۔
  • اس آيت کے بارے میں فلاں حدیث پیش کی جا سکتی ہے۔
  • رسول نے اس آیت سے فلاں مسئلہ کا استنباط کیا تھا۔
  • یہ آیت رسول نے صحابہ کے درمیان اس مقصد کے لیے تلاوت فرمائی۔
  • اس آیت میں فلاں تاریخی وافعہ بیان کیا گیا ہے۔
  • اس آیت میں مشرکین، منافقین، یہود و نصاریٰ سے مخاصمہ کیا گیا ہے۔
  • یہ آیت لوکوں کے عقائد باطلہ کے بطلان کے لیے نازل ہوئی۔

شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں : قرآن صرف لوکوں کے نفسوں کی تہذیب اور ان کے باطل عقائد اور فاسد اعمال کی اصلاح کے لیے نازل ہوا ہے۔ لہذا مختلف قسم کی آیات کے اسباب نزول بھی مختلف ہیں۔ مثلا:

  • آیات مخاصمہ کے نزول کا سبب، لوگوں کے عقائد باطلہ ہیں۔
  • آیات احکام کے نزول کا سبب، لوگوں کے فاسد اعمال اور ان کے درمیان مظالم کا رواج ہے۔
  • آیات تذکیر کے نزورل کا سبب یہ ہے کہ لوگ اللہ تعالٰی کی نشانیوں کی طرف سے بے توجہی اور لاپروائی برتتے تھے۔
  • آیات تذکیر بالموت و مابعد، میں موت اور موت کے بعد کے حالات بیان کرنے کا سبب یہ ہے کہ لوگ حشر و نشر میں شکوک و شبہات رکھتے تھے۔

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم