استدراج
اِسْتِدراج : بے باک فُجّاریا کفار سے جوبات ان کے موافق ظاہرہواس کواستدراج کہتے ہیں ۔[1]
استدراج کی تعریف
ترمیماگرخلاف عادت امور کوئی شخص پیش کرے تو دیکھیں کہ وہ مسلم ہے یا غیر مسلم اگر غیر مسلم ہے تو اس کو استدراج کہتے ہیں اور اگر خلاف عادت امور پیش کرنے والا مسلمان ہے او رمدعی نبوت نہیں ہے تو اسے کرامت کہتے ہیں تو گویا کسی کافر کے ہاتھ پر اس کے دعویٰ کے موافق خلاف عادت کام صادر ہو جیسے دجال کئی کام کرے گا۔[2]
استدراج کی مثالیں
ترمیماگر کافر کے ہاتھ پر خلاف عادت کوئی چیز ظاہر ہو تو اس کو استدراج کہتے ہیں دجال جب آئے گا تو اس کے ہاتھ پر بہت کچھ ظاہر ہوگا بادلوں کو حکم دے گا وہ اکٹھے ہوکر بارش برسانا شروع کر دیں گے زمین پر پاؤں مارے گا وہ سونا چاندی اگل دے گی جو لوگ اس کو خدا مانے ان کے گھروں کو دولت سے بھر دے گا اور جو اس کو الہ نہیں مانیں گے ان کے گھروں کا سامان دجال کے پیچھے چل پڑے گا جیسے کسی چیز کو پہیے لگ جاتے ہیں کوئی شے گھر میں نہیں رہے گی عجیب امتحان ہوگا عجیب و غریب چیزیں اس سے صادر ہوں گی یہ استدراج ہے۔[3]
استدراج کے متعلق اقوال
ترمیمشیخ شہاب الدین سہروردی نے اپنی کتاب اعلام الہدی وعقیدۃ ارباب التقی میں فرمایا جس شخص کے لیے اور جس کے ہاتھ پر کرامات ظاہر ہوں وہ احکامِ شریعت کا پورا پابند نہ ہو تو ایسا شخض بے دین ہے اور جو خلافِ عادت چیزیں اس کے ہاتھ پر ظاہر ہوں وہ کرامات نہیں بلکہ دھوکا اور استدراج ہے۔ [4] سلسلہ چشتیہ اشرفیہ کے سردار' قطب ربانی مخدوم اشرف جہانگیر چشتی سمنانی فرماتے ہیں۔ خلاف عادت فعل اگر ولایت سے متصف کسی شخص سے ظاہر ہو تو اسے کرامت کہتے ہیں اور اگر کسی شریعت کے مخالف سے ظاہر ہو تو استدراج کہتے ہیں۔ [5]
استدراج اور کرامت میں فرق
ترمیممولانا نور الدین جامی فرماتے ہیں اگر خلافِ عادت ایک لاکھ افعال بھی ظاہر ہوں جب تک ان کا ظاہر شریعت کے احکام کے موافق نہ ہو اور باطن طریقت کے آداب کے مطابق نہ ہو وہ درست ہے استدراج ہوگا ولایت وکرامت نہیں [6]