اسرائیلی ثقافت اور یہودی ثقافت دونوں میں یکسانی کے باوجود فرق ہے۔ بیش تر یہودی اسرائیلی کو اپنا دائمی آشیانہ بنا چکے ہیں، اگر چیکہ وہ کئی دیگر ممالک یہاں آباد ہوئے ہیں۔ جب کہ دنیا کے متفرق حصوں میں یہودی آباد ہو کر بھی وہ اپنے آبائی طریقوں کو اپنائے ہیں، بھلے وہ وہاں قلیل التعداد کیوں نہ ہوں۔ تاہم جغرافیائی اعتبار سے اسرائیل ایک الگ ملک اور یہودیت ایک مذہب ہے۔ اس لیے اسرائیلی ثقافت لا محالہ ملک اسرائیل ہی کی تہذیب کی آئینے دار ہے۔

ایک اسرائیلی تھیٹر گروپ اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے

یہودی مملکت اسرائیل ایک ہی وقت میں ایک قدیم اور نیا ملک ہے۔ گو قدیم طور پر یہودی یہاں آباد تھے، مگر یہ ملک 1948ء میں اپنے دوبارہ احیاء تک معدوم ہو چکا تھا۔ یہ رقبے میں چھوٹا ہے لیکن ثقافتی طور پر فعال ہے اور مختلف حصوں اور برادریوں پر مبنی ہے۔ یہ چار ہزار سال پرانی یہودی ورثہ رکھتا ہے۔ ایک صدی سے بھی زیادہ طویلصیہونیت پر مبنی جد و جہد کا نتیجہ ہے۔ اور آدھی صدی سے زیادہ طویل جدید قوم پرستی ان سب نے مل کر ایک ایسی ثقافت کو جنم دیا ہے جس کی اپنی شناخت ہے، مگر اس میں 70 سے بھی زیادہ مختلف برادریوں کی اپنی خصوصیات بھی برقرار ہیں۔ اسرائیل میں یہودی دنیا بھر سے یہودیوں کی سنگم ہے، اس میں بہت سے ثقافتی اور سماجی اثرات موجود ہیں۔ یہ روایت اور جدیدیت کا ایک منفرد امتزاج ہے، جس میں اسرائیل اپنی اپنی خاصیت رکھتا ہے اور متصلًا عالمی عناصر بھی دیکھے جاتے ہیں۔ اسی ثقافتی شناخت کے لیے یہ جدوجہد جاری ہے۔ یہ روزانہ کی زندگی میں مختلف فنون کی شکل میں بھی ظاہر ہوتا ہے۔

تھیٹر اور تفریح ترمیم

اسرائیل میں معاصر اور کلاسیکی تھیٹر کے بہت سے زاویے شامل ہیں۔ مقامی اور در آمد کردہ، تجرباتی اور روایتی۔ کھیلوں، فنکاروں، ہدایت کاروں اور ڈراما ساز مختلف پس منظر پیش کرتے ہیں ہیں۔

مقامی منظوری اور باقاعدہ طور پر اسرائیلی تھیٹر کی ترقی سے لے کر انفرادی تعاون کی وجہ سے تھیٹر کا ماحول بہت فعال ہے۔ بہت سے پیشہ ورانہ اور غیر پیشہ ورانہ تھیٹر کمپنیوں اور درجنوں علاقائی گروہوں نے ملک بھر میں عوام کو اپنے فن سے لبھانے کی کوشش کی ہے۔ حالیہ برسوں میں، بہت سے اسرائیلی تھیٹر کمپنیوں نے مشرقی اور مغربی یورپ اور امریکا کا دورہ کیا اور بین الاقوامی تہواروں میں حصہ لیا۔

مزاحیہ تفریح ترمیم

ٹیلی ویژن اور ریڈیو یہاں مقبول تفریحی ذرائع ہیں۔ اس کے علاوہ، گلوکاروں، موسیقاروں، موسیقی بینڈ اور دیگر گروہوں نے ملک بھر میں باقاعدگی سے پروگرام کیے ہیں۔ کچھ گلوکاروں نے کلیدی حیثیت حاصل کی ہے۔ ایسے گلوکاروں میں ایرک ايسٹين، شلومو ارتجی، میٹی كیسپیاور ریویتج کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ اسی طرح، ٹیپیکس، ماشینا، ایٹراف، ایتھنکس، فرینڈز آف نتاشا، بیٹ ہبوباٹ نے بیرون ملک بہت معروف ہوئے۔ ڈوڈو فیشر، مرحوم اوٹرٹا ہجا، ریمی كلسٹين، ایوین گیفین، ڈیوڈ بروجا اور نوا ایہیمنوم نین نے بھی اپنے فن سے لوگوں کا دل جیت لیا ہے۔[1]

سینیما ترمیم

گذشتہ ستر سالوں میں اسرائیلی سینیما نے بہت ساری ترقی کی ہے۔ اسرائیلی فلموں نے 2007ء سے پہلے سے زیادہ مقبولیت حاصل کی۔ جوزف سوڈر نے اپنی فلم بیونفیر کے لیے بہترین ڈائریکٹر ایوارڈ جیت لیا، جس میں پہلی لبنانی جنگ دکھایا گیا تھا۔ فلم نے برلن فلم فیسٹیول میں 11 دیگر ایوارڈ بھی وصول کیے ہیں۔ ڈیوڈ کولیک کی فلم میرے والد میرا رب، جس میں ایک دقیانوسی خاندان کو چھٹیوں سے چھٹکارا لیتے یوئے دکھایا گیا ہے، ٹریویکا میں سب سے بہترین فلم کا انعام حاصل ہوا۔

حوالہ جات ترمیم