اسلام خان پنجم (وفات 21 صفر 1147 ہجری بمطابق 1734 عیسوی) مغل دور کے ایک اہم امیر اور معزز آدمی تھے۔ بہادر شاہ اول نے انھیں اسلام خان اور برخوردار خان کا لقب کیا۔ بہادر شاہ اول، جہاندار شاہ ، فرخ سیر ، رفیع الدرجات ، شاہ جہاں دوم اور محمد شاہ کے دور میں اہم مناصب پر متعین رہے۔ برخوردار خان دوم آکا میاں کھیسہ، برخوردار خان اول کے بیٹے اور اسلام خان کے پوتے تھے۔ برخوردار دوم پنج ہزاری منصب دار تھے اور شاہ عالم نے انھیں اسلام خان کا لقب اور داروغہ خاص (دیوان خاص کے سپریڈینٹ) کا منصب عطا کیا۔ اور اس کے ساتھ خلعت فاخرہ اور خلعت بارانی سے بھی نوازا۔ وہ دربار سے ریٹائرمنٹ سے پہلے " میر آتش" ( نشانہ بازی کے استاد) بہادر شاہ اول کی طرف سے کہلائے گئے۔ اس کی بحالی 5,000 (3000 گھوڑے) سے ہوئی اور میر تزک اول (سہہ ماہی جنرل) کے طور پر تعینات ہوئے۔ یہ اسلام خان (1144ہجری-1732) پہلے برخوردار خان پھر اسلام خان صفی خان (1105ھ بمطابق 4-1693 عیسوی) عبد السلام کا دوسرا بیٹا تھا۔[1] اسلام خان نے سید برادران کے ساتھ بہت سے بڑے تنازعات کے بحران کے دوران میٱ تصفیہ مذاکرات میں اہم کردار ادا کیا۔ برخوردار خان کا گھرانا سلیم چشتی سے نسبت رکھتا تھا۔ اسلام خان اس کے پردادا تھے۔ اس خاندان نے مغل شہنشاہوں سے حاصل ہونے والے لقب "اسلام خان" کی روایت کو نسل در نسل برقرار رکھا۔

اسلام خان پنجم
17–18th century
Barkhurdar Khan III
مکمل نام
Barkhurdar Khan II
والدBarkhurdar Khan I, Islam Khan IV
پیدائشFerozepur Jhirka
وفات1734
پرانی دہلی
مذہبIslam

یہ بھی ایک بہت دلچسپ بات ہے کہ جہاں قاضی سید رفیع کی بیٹی کی شادی قاضی غلام مصطفی سے ہوئی اور دوسری بیٹی صاحب دولت کی شادی برخوردار خان دوم سے ہوئی۔ اس رشتے کی وجہ سے اسلام خان، خان زمان خان علی صغر سے بہت قریب تھا دونوں نے مغل بادشاہوں کے دربار میں اہم جگہ حاصل کی۔ برخوردار دوم نے قاضی سید رفیع کی بیٹی صاحب دولت سے شادی کی تھی اور ان کے دو بیٹے بھی تھے۔ بڑے بیٹے کا نام غلام آکا مدن جس کو برخوردار خان سوم کا لقب ملا اور دوسرا بیٹا غلام محمد آکا صدان قتل ہوا جو 1765ء کی جنگ میں شجاع الدولہ اور انگریزوں کے درمیان توپ کا گولہ لگنے سے شہید ہوا۔ غلام باقی نے اپنی عزیزہ ( دختر ماہ بی بی بنت قاضی سید رفیع محمد) اور نور الحق ابن میاں عبد الرحمان تجارہ سے شادی کی۔

حکیم سید ظل الرحمان اپنی کتاب "حیات کرم حسین" میں اس کی تاریخ وفات کے متعلق لکھتے ہیں جو 21 صفر 1147 ہجری ہے یہ حوالہ تاریخ محمدی کا ہے جب کہ دیگر مصنفین نے اس میں اختلاف کیا ہے اور وفات کی تاریخ 1144 ہجری 1734 عیسوی لکھی ہے۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. Later Mughal, Chapter 4: Farrukhsiyar (New officials appointed by Farrukhsiyar), Atlantic Publishers and Distributors, New Delhi, 1991, page 259