اشرف الجواب اشرف علی تھانوی کے علوم و معارف کا فیضان ان کے ملفوظات، مجالس، مواعظ اور تصانیف و رسائل کی شکل میں عام ہے، ہزاروں صفحات میں مشتمل شائع و ذائع ہے، ان سے انتخاب و استفادہ کرکے بعد والوں نے بہت بیش قیمت مواد جمع کر لیا ہے اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ کتاب اشرف الجواب اسی سلسلہ کے ایک عظیم الشان کڑی ہے، جسے اشرف علی تھانوی کے ایک مسترشد علی محمد لاہوری نے تھانوی ملفوظات و تحریروں سے ان مضامین کو جمع کیا جو اسلام یا اسلامیات پر کیے جانے والے اعترضات کے جوابات ہیں، کتاب کے 4 اجزاء ہیں، جو 3 مضامین پر منقسم ہے، مکمل کتاب تحقیقی و الزامی، علمی و فلسفی، عقلی و نقلی، بدیہی و نظری ہر قسم کے جوابات کو حاوی ہے، جس سے ان کی دقیقہ سنجی اور نکتہ آفرینی کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔[1]

پہلا حصہ

ترمیم

ان مضامین پر مشتمل ہے جو غیر مسلم اقوام کے اسلام پر اعتراض کے جواب ہیں، اس میں ذبح حیوانات، مسیلہ غلامی، مسئلہ رسالت، سزائے مرتد، دفن میت جیسے 20 سے زائد اہم اعتراض کے جواب ہیں، ضمنی جوابات علاحدہ ہیں۔ جیسے ایک غیر مسلم نے کہا کہ لوگ قرآن مجید کو اللہ کا کلام کہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے زبان بھی نہیں ہے تو یہ اللہ کا کلام کیسے ہوا ؟ اس کا جواب دیتے ہویے کہتے ہیں :

ہم (انسانوں) کو کلام کرنے کے لیے زبان کی ضرورت ہے، لیکن خود زبان کو کلام کرنے کے لیے زبان کی ضرورت نہیں، وہ خود اپنی ذات سے سے کلام کرتی ہے، اسی طرح ہم کان سے سنتے ہیں، لیکن کان خود اپنی ذات سے سنتا ہے، اس کو کسی اورآلہ کی ضرورت نہیں، تو جب زبان اس پر قادر ہے کہ بے زبان کلام کرے تو اسی طرح اللہ تعالیٰ کو کلام کے لیے کسی آلہ (عضو) کی ضرورت نہ ہو تو کیا تعجب ہے ؟ صفت کلام تو خود اس کی ذات میں موجود ہے، کلام خود اس کی ذات سے بلا زبان صادر ہوتا ہے۔

اس جواب سے وہ غیر مسلم شخص بہت خوش ہوا اور اپنے ہمراہی سے کہا دیکھو ! اس کو کہتے ہیں علم۔

[2]

مسائل دینیہ و امور شرعیہ کو اپنی عقل کی میزان پر جانچنے والوں کو کیا ہی معقول جواب دیا ہے :

آپ خلاف عقل ایسی باتوں کو بھی کہتے ہیں جن کا وقوع و مشاہدہ ہوجایے تو وہ خلاف عقل نہ رہیں، معلوم ہوا آپ دراصل خلاف عادت کو خلاف عقل کہہ رہے ہیں، کسی بات کے صحیح ہونے کے لیے خلاف عادت ہونا مضر نہیں اور نہ یہ غلط ہونے کی دلیل ہے، ورنہ پھر اس لڑکے کے قول کو بھی مان لینا چاپئے جو ماں کے پیٹ سے انسان کے پیدا ہونے کو بھی غلط کہتا تھا۔

دنیا میں بہت سے امور عادت کے خلاف ہوتے رہتے ہیں، میں نے ایک مرغی کا بچہ دیکھا جس کے چار پیر تھے اور آج کل (تھانوی کے زمانے کی بات ہے اور موجودہ زمانے میں تو بے شمار ایسے جڑواں بچے پایے جاتے ہیں )دہلی میں دو لڑکیاں جڑی ہوئی نمائش میں تھیں، جن کے تمام اعضاء جدا جدا تھے، مگر کمر جڑی ہوئی تھی اور پیشاب گاہ الگ الگ تھی مگر پیشاب نکلتا ایک کے رستے سے تھا۔ تو بتلائیے کہ کیا خلاف عادت کے لیے بھی کوئی ضابطہ ہو سکتا ہے ؟ جس کے اوپر بنا کرکے بعض امور کو مانا جایے اور کسی کے متعلق یہ کہہ دیا جایے کہ :چونکہ یہ خلاف عادت ہے اس لیے ہم اس کو نہیں مانتے۔

[3]

دوسرا حصہ

ترمیم

اس میں اہل السنہ پر کیے گئے اشکالات کے جواب ہیں۔[1]

تیسرا حصہ

ترمیم

تیسرے حصہ میں ان سوالوں کے جوابات ہیں جو نیے اور روشن خیالات کے لوگوں کے ہوا کرتے ہیں، مثلا پردہ کو تعلیم کے لیے مضر کہا جاتا ہے، اس کا جواب دیتے ہویے کہتے ہیں :

اصل بات یہ ہے کہ تعلیم یافتہ ہونے میں پردہ یا بے پردگی کو کوئی دخل نہیں، بلکہ اس میں بڑا دخل توجہ کو ہے، اگر کسی قوم کی عورتوں کی تعلیم پر توجہ ہو تو وہ پردہ میں بھی تعلیم دے سکتے ہیں، ورنہ بے پردگی میں بھی کچھ نہیں ہوسکتا، بلکہ غور کیا جایے تو پردہ میں تعلیم زیادہ وسکتی ہے، کیونکہ تعلیم کے لیے یکسوئی اور اجتماع خیال کی ضرورت ہے، اور وہ گوشہ تنہائی میں زیادہ حاصل ہوتی ہے، اسی واسطے مرد بھی مطالعہ کے لیے گوشہ تنہائی تلاش کیا کرتے ہیں۔

[4]

چوتھا حصہ

ترمیم

اس میں انسانی تخلیق، وجود صانع، معراج جسمانی، حیات شہداء کرام، عالم مثال، عذاب و ثواب، حقیقت پل صراط پر مفصل بحث ہے۔

تصوف کی تہذیب

ترمیم

چونکہ اشرف علی تھانوی ایک بڑے محقق صوفی بھی تھے، اس لیے انھوں نے حقیقی تصوف یعنی تزکیہ کا دفاع بھی کیا، جو باتیں جہلا کی طرف سے صوفیا کو منسوب کی جاتی ہیں ان کا رد بلیغ کیا، ایک جگہ کہتے ہیں :

بعض لوگ صوفیہ کو بھی بدنام کرتے ہیں کہ ان کے کچھ علوم سینہ بہ سینہ ہیں، مگر یہ بالکل غلط ہے، صوفیاء کے یہاں جو چیز سینہ بسینہ ہے وہ علوم نہیں، علوم تو ان کے پاس وہی ہیں جو کتاب و سنت میں مذکور ہیں، ہاں ایک چیز ان کے یہاں سینہ بسینہ ہے، یعنی نسبت اور طریق سے مناسبت۔

[5]

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب Ashraf Ul Jawab By Maulana Ashraf Ali Thanvi اشرف الجواب | Islamic Books
  2. اشرف الجواب صفحہ 19
  3. اشرف الجواب صفحہ 392
  4. اشرف الجواب 380
  5. اشرف الجواب صفحہ 83