اصبغ بن عمرو رحمہ اللہ اہل کتاب تابعی تھے۔

اصبغ بن عمرو رحمہ اللہ
معلومات شخصیت

نام ونسب

ترمیم

اصبغ نام، باپ کا نام عمرو تھا، سلسلہ نسب یہ ہے، اصبغ بن عمروبن ثعلبہ بن حصین ابن ضمضم بن عدی بن خباب، قضاعہ کی ایک شاخ بنوکلب سے تھے، یہ قبیلہ دومۃ الجندل کے قریب رہتا تھا، اصبغ مذہباً عیسائی اور اپنے قبیلہ کے سردار اور حکمران تھے۔

اسلام

ترمیم

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوتِ اسلام کے لیے حضرت عبد الرحمن بن عوف کودومۃ الجندل بھیجا تھا، حضرت عبد الرحمن رضی اللہ عنہ نے وہاں پہنچ کراہلِ دومہ کواسلام کا پیغام سنایا، پہلے روز ان پرکوئی اثر نہیں ہوا، دوسرے روز بھی انھوں نے دعوت دی؛ لیکن ان لوگوں نے کوئی توجہ نہیں کی، تیسرے روز پھرحسب دستور انھوں نے ان کے سامنے اسلام کا پیغام پیش کیا تواصبغ پران کی دعوت کا اثر ہوا اور انھوں نے نصرانیت کا قلادہ گردن سے اُتارا اور حلقہ بگوشِ اسلام ہو گئے۔

اصبغ کی صاحبزادی سے حضرت عبد الرحمن بن عوف کا نکاح

ترمیم

حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کواصبغ کے اسلام کی اطلاع دی اور اس قبیلہ سے تعلقات قائم رکھنے کے متعلق بھی دریافت کیا، توآپ نے ان کوتعلقات کی استواری کے خیال سے اس قبیلہ میں شادی کرنے کی ترغیب دی، حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے تعمیلِ ارشاد میں اصبغ کی صاحبزادی تماضر رحمہ اللہ سے نکاح کر لیا[1] مزید تفصیل تماضر کے حالات میں آئی گی۔ اس سے پہلے قریش اور بنوکلب وغیرہ میں باہم شادی بیاہ کے تعلقات نہیں تھے، اس لیے کہ قریش اپنی شرافتِ نسب کے سامنے ان قبائل کوبہت ادنی اور فروتر سمجھتے تھے؛ لیکن اسلام نے ان معمولی رشتوں اور اضافی اوصاف سے بلند ہوکر دینی اخوت اور اخلاق وکردار کو شرافت اور رشتہ کامعیار قرار دیا، یہ شادی اس اسلامی مساوات کی پہلی مثال تھی۔ [2] اصبغ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں موجود تھے؛ لیکن شرف زیارت سے سرفراز نہیں ہوئے؛ اسی لیے ان کا شمار تابعین میں کیا جاتا ہے، اس سے زیادہ ان کے حالات نہیں معلوم ہو سکے۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. (اصابہ، جلد:1)
  2. (اصابہ، جلد:4، ذکرتماضر)