اصحاب جنت (باغ والے) کا ذکر قرآن مجید میں انتیسویں پارے کے کی ایک سورہ، القلم میں بیان کیا گیا ہے۔ باغ والے کے وطن کے متعلق مفسرین کا یہ قول ہے وہ یمن کے علاقے میں صنعاء سے کچھ دور تھے اور کچھ مفسرین نے کہا ہے کہ وہ ضوران کے علاقے میں تھے۔ (ضوران بھی یمن کا حصہ ہے)۔

قرآن میں تذکرہ

ترمیم

اِنَّا بَلَوۡنٰہُمۡ کَمَا بَلَوۡنَاۤ اَصۡحٰبَ الۡجَنَّۃِ ۚ اِذۡ اَقۡسَمُوۡا لَیَصۡرِمُنَّہَا مُصۡبِحِیۡنَ ﴿ۙ17﴾

بیشک ہم نے انھیں اسی طرح آزما لیا جس طرح ہم نے باغ والوں کو آزمایا تھا جبکہ انھوں نے قسمیں کھائیں کہ صبح ہوتے ہی اس باغ کے پھل اتار لیں گے ۔ وَ لَا یَسۡتَثۡنُوۡنَ ﴿18﴾

اور ان شاء اللہ نہ کہا ۔

فَطَافَ عَلَیۡہَا طَآئِفٌ مِّنۡ رَّبِّکَ وَ ہُمۡ نَآئِمُوۡنَ ﴿19﴾

پس اس پر تیرے رب کی جانب سے ایک بلا چاروں طرف گھوم گئی اور یہ سو ہی رہے تھے ۔

فَاَصۡبَحَتۡ کَالصَّرِیۡمِ ﴿ۙ20﴾

پس وہ باغ ایسا ہو گیا جیسے کٹی ہوئی کھیتی ۔

(سورہ، القلم۔ پارہ، انتیس)

واقعہ کی تفصیل

ترمیم

یمن کے ایک علاقے میں ایک باغ تھا جس کا مالک نیک اور رحم دل تھا۔ وہ جب باغ کے پھل توڑتا تو اس میں سے غریبوں اور مسکینوں کا حصہ نکال دیتا لیکن وہ انتقال کر گیا تو ان کے بیٹوں نے کہا کہ اب ہم سارے پھل صبح سویرے توڑ لیں گے اور اس میں سے کسی کو نہیں دیں گے۔ ان کے غرور کا یہ حال تھا کہ ان شاء اللہ بھی نہ کہا۔ چنانچہ الله تعالٰی نے ان کے باغ کو تباہ و برباد کر دیا اور جب صبح وہ لوگ اپنے باغ پر پہنچے تو ایسا لگا جیسے راستہ بھٹک گئے ہوں لیکن جب انھوں نے اپنے اجڑے ہوئے باغ کو دیکھا اور پہچانا تو اپنی غلطی کو محسوس کیا اور شرمندہ ہو کر الله تعالٰی سے اپنے گناہوں کی معافی مانگی۔

نصیحت

ترمیم

دراصل اس واقعے میں چند نصیحتیں بھی ہیں کہ کسی کو غرور نہیں کرنا چاہیے، غریبوں اور مسکینوں کو محروم نہیں کرنا چاہیے اور سب سے اہم یہ کہ جو خدا دنیا میں عذاب پر قادر وہ آخرت میں بھی عذاب دے سکتا ہے چنانچہ الله تعالٰی سے گناہوں کی معافی مانگ کر توبہ کر لینا چاہیے۔

حوالہ جات

ترمیم

[1]

  1. ١، تفسیر قرطبی، سورہ القلم، پارہ انتیس ٢، جونا گڑھی کی تفسیر، سورہ القلم آیت ١٧ تا ٣٣