یہ کتاب ’’اصلاح انسان کی خدائی تدبیریں ‘‘ شیخ اکبر کی دیگر کتب کی نسبت عام فہم اور آسان ہے اسے ہر وہ آدمی پڑھ کر سمجھ سکتا ہے جس کا علوم تصوف سے کوئی خاص رابطہ نہ ہو۔ اس کتاب میں شیخ اکبر نے حاضراتِ انسانی کی منزل بیان کی ہے، بہت سے وہ حقائق بیان کیے ہیں جو اس حضرت انسان کی میراث ہیں، ان اشارات کی طرف توجہ دلائی ہے جن سے انسان اپنی پہچان کر سکتا ہے۔ صوفیائے کرام ہمیشہ سے انسان کو اپنے آپ پر غور کی دعوت دیتے، آفاق کے مشاہدے سے نکال کر انفس کی گہرایوں میں غرق کرتے، دوئی کی تفریق سے نکال کر یکسوئی میں محو کرتے رہے ہیں، فرماتے ہیں کہ اے بندے یہ سب کائنات تیرے اندر ہی موجود ہے تو غور کیوں نہیں کرتا: ﴿ وَفِیْ أَنفُسِکُمْ أَفَلَا تُبْصِرُون﴾ (الذاریات: 21) اور خود تم میں (نشانیاں ہیں) تم غور نہیں کرتے کیا۔ صوفیائے کرام کا یہ قول ایک مجمل قول ہے جس سے بندے کو یہ سمجھ میں نہیں آتی کہ خود میں غور کیسے کیا جائے؟ اِس کتاب میں شیخ اکبرؒ نے نہایت تفصیل سے انسان کی توجہ اس منہج پر دلائی ہے جس سے وہ اپنے آپ میں غور کر کے اس منزل کو پا سکتا ہے۔ آپؒ نے اس کائنات کو انسان کبیر اور انسان کو کائنات اصغر کہا ہے اور دلائل سے بتایا ہے کہ اس انسان کے اندر بھی وہ تمام اشیاء موجود ہیں جو اس کائنات کے اندر موجود ہیں بلکہ یہ انسان اس کائنات کی روح ہے جیسے روح اس جسم کی تدبیر کرتی ہے ویسے ہی انسان کامل اس کائنات کی تدبیر کرتا ہے، روح (خلیفہ) خالق کی نائب ہے، اس کائنات کو پہنچنے والا فیض انسان کامل کے توسط سے ہی اس تک پہنچتا ہے لہذا اس انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی نظراپنے خالق پر رکھے اور اُس کی ادنی مخلوقات کو اپنے دل میں گھر نہ بنانے دے۔ رزق کی مثال دیتے ہوئے آپؒ فرماتے ہیں کہ رزق کے پیچھے بھاگنے والے کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کہ ایک شخص سورج کے سامنے کھڑا ہو، لازماً اس کا سایہ اس کے پیچھے ہو گا۔ اگر وہ سورج کو چھوڑ کر اپنے سایے کی طلب میں کوشاں ہو جائے تو اس کا سایہ آگے آگے دوڑے گا اور وہ شخص اس کے پیچھے پیچھے، ایسے دوڑنے میں اس شخص نے وہ حصہ بھی گنوا دیا جو اسے سورج کی طرف منہ کرنے سے حاصل ہونا تھا۔ آپؒ فرماتے ہیں: سورج ذات حق تعالٰی ہے سایہ دنیا ہے اور جو سایہ تیرے پاؤں میں تجھ سے ملا ہوا ہے وہ تیرا رزق ہے۔ پس اس انسان کو بھی اپنے رب کی طرف لوٹنا چاہیے نہ کہ وہ اس دنیا کی طلب میں ہی ساری زندگی گنوا دے اور رب کی طرف سے ملنے والا حصہ بھی کھو بیٹھے

تدبیرات الہیہ
سرورق طبع شدہ کتاب
مصنفشیخ اکبر محی الدین محمد ابن العربی
اصل عنوانالتدبيرات الإلهية في اصلاح المملكة الإنسانية
مترجماردو: ابرار احمد شاہی
ملک سوریہ
زبانعربی
موضوعتصوف
صنفاسلامی تصوف
ناشراردو:ابن العربی فاؤنڈیشن پاکستان،

مملکت انسانی ايک بادشاہت

 

آپ نے انسانی مملکت کو ایک بادشاہت سے تشبیہ دی ہے جس طرح ایک مملکت میں بادشاہ، وزیر، مشیر، محافظ، قاضی، سپاہ سالار، فوج اور رعایا ناگزیر ہے ویسے ہی اس جسم انسانی میں بھی یہ سب موجود ہیں۔ انسان اپنی زندگی کے مراحل ویسے ہی طے کرتا ہے جیسے کوئی پودا طے کرتا ہے، یہ جوان ہوتا ہے پھر اس سے بیج لیا جاتا ہے، کئی پودوں کی نسل چلتی ہے جبکہ کچھ کی رک جاتی ہے، پھر یہ پودا بوڑھا ہو کر ختم ہو جاتا ہے انسان کی مثال ایسی ہی ہے شیخ اکبر کے نزدیک اس انسان کا بھائی اور دوسرا پودا یہ کائنات ہے۔ کائنات کے بڑھنے کی مثال انسان میں ناخن اور بال ہیں، کائنات میں چار عناصر ہیں انسان کی تخلیق بھی انہی عناصر سے ہوئی ہے۔ کائنات میں درندے اور وحشی جانور ہیں انسان میں بھی قہر غضب کمینگی اور حسد ہے۔ جیسے کائنات میں نیک روحیں اور فرشتے ہیں ویسے ہی انسان میں اعمال صالحہ ہیں۔ زمین میں موجود پہاڑوں کی مثال انسان میں ہڈیاں ہیں۔ زمین میں بہتے دریاوں کی مثال اس کی رگوں میں گردش خون ہے۔ جیسے کائنات میں سورج ایک روشن چراغ ہے ویسے ہی جسم میں روح ایک روشنی ہے؛ جب یہ جسم سے جدا ہوتی ہے تو جسم اندھیرے میں ڈوب جاتا ہے۔ کائنات میں چاند ہے انسان میں اس کی مثال قوت عقل ہے جیسے چاند سورج سے روشنی اخذ کرتا ہے ویسے ہی عقل روح سے نور اخذکرتی ہے، جیسے چاند گھٹتا اور بڑھتا ہے ویسے ہی عقل عمر کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہے اور پھر بڑھاپے میں کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ عالم علوی میں موجود عرش کی مثال جسم انسانی میں دل ہے اور اسی طرح کی دوسری مثالیں۔

امورمملکت چلانے کا طریقہ

اس کتاب میں آپؒ نے مملکت کے امور چلانے کے لیے ایک نہایت مفید طریقہ وضع کیا ہے جس سے دنیاوی مملکت میں بھی مدد لی جا سکتی اور اگر اس دل کی مملکت کی اصلاح کی جائے تو شیخ اکبرؒ کی مراد اور منشأ تو یہی ہے۔ آپ نے ان تمام مسائل پر روشنی ڈالی ہے جو اس مملکت جسمانی کی تدبیر میں خلیفہ کو پیش آ سکتے ہیں۔ اس جسمانی مملکت کا بادشاہ یا خلیفہ روح ہے اور اس کا نائب یا وزیر، عقل ہے جیسے دنیاوی مملکت کی بقا عدل کے بغیر ممکن نہیں ویسے ہی اس جسمانی مملکت کا دارو مدار بھی عدل و انصاف پر ہے۔ اسی طرح جسم میں عدل کو قاضی کہا گیا ہے اور ارادے کو کاتب کہا ہے جو لوح قلب پر امور نفس لکھتا ہے پھر اعضاء سے اعمال کا ظہور ہوتا ہے ؛ زبان ان سب کی مترجم ہے۔ آپ نے اس مملکت میں خلیفہ کے مقابل ایک قابل اطاعت سرکش انقلابی سردار کا ذکر بھی کیا ہے جسے خواہش کہا ہے اس کا مادہ نار ہے جو نور کے الٹ ہے جبکہ روح کا مادہ نور ہے۔ خواہش کے وزیر کا نام شہوت ہے اور اس کے پاس بھی فوج، ایلچی، قاصد اور دیگر کارندے ہیں اس کی کوشش ہوتی ہے کہ اس جسمانی مملکت کے غیر آباد علاقوں پر اپنا تسلط قائم کرکے تیری رعایا کو تجھ سے بغاوت کرنے پر اکسائے۔ نفس ان دونوں بادشاہوں (روح اور خواہش) کے درمیان برزخ ہے کبھی وہ ایک کی بات مانتا ہے تو نیکی کرتا ہے اور جب دوسرے کا غلبہ ہو تو برائی سرزد ہوتی ہے۔ نفس کی تخلیق کے بارے میں شیخ اکبرؒ نے اپنی کتاب (شجرۃ الکون) میں فرمایا ہے "انسان کی تخلیق سے قبل شیطان کو اللہ نے زمین پر فرشتوں کے ساتھ خلافت دے رکھی تھی، وہ زمین پر کافی عرصہ اللہ کی عبادت کرتا رہا۔ جب اللہ تعالٰی نے ملک الموت کو زمین سے حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کے لیے مٹی لانے کو کہا تو اس وقت شیطان زمین پر اکٹر کر چلتا تھا اور اس مٹی کو اپنے پاؤں تلے روندتا تھا۔ پس جب آدم علیہ السلام کی مٹی کو خمیر کیا گیا اور آپ کی صورت تخلیق کی گئی تو اس پاؤں سے روندی ہوئی مٹی نے نفس کی شکل اختیار کی جبکہ دل کی تخلیق اس مٹی سے ہوئی جس پر شیطان کا قدم نہ پڑا تھا لہذا نفس میں شیطانی اوصاف کا ظہور ہوا اور یہ اس مٹی پر شیطان کے قدم لگنے کی وجہ سے تھا۔ اسی وجہ سے شیطان نے آدم پر تکبر کیا۔ اور اللہ کے اس قول

﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّیْْطَانِ﴾ (النور: 21) اے ایمان والوں شیطان کے قدموں کی پیروی نہ کرو (یعنی جو چیز اس کے قدموں کے نیچے کی مٹی سے پیدا ہوئی ہے)"۔

مرید کے لیے وصیتیں

کتاب کے آخر میں آپؒ مرید کی رہنمائی کرتے ہوئے اسے بہت سی وصیتیں کرتے ہیں جو راہ سلوک میں اس کے لیے فائدہ مند ہیں۔ آپ نے مرید کو تلاش مرشد کے دوران مختلف احکامات دیے ہیں جن پر عمل کر کے اس کے لیے اس راہ میں آنا آسان ہو جائے گا۔ سب سے پہلے اس پر شریعت کی پابندی لازم ہے، پھر غذا کا باب ہے، پتھروں کے خواص اور موسموں کے اثرات پر بھی ایک باب ہے۔ پھر خلوت کی تیاری ہے جس میں جسم کو آسائشوں سے روکنے کا عادی بنانا ہے اس کے بعد آپ نے اسے تلاش مرشد کے لیے سفر کا حکم دیا ہے اور ان جگہوں کی بھی نشان دہی کی ہے جہاں مرید کو کوئی شیخ مل سکتا ہے جیسے کہ ویرانے، پہاڑ، ساحل، جنگل وغیرہ۔ جب مرید کو کوئی مرشد میسر آ جائے تو مرید پر مرشد کے حقوق کو تفصیلی بیان کیا ہے؛ جیسے کہ مرشد کی تعظیم اور خدمت، اس کے دوست سے حسن سلوک کرنا اور اس کے دشمن سے قطع تعلقی، مرشد کے احکامات پر عمل کرنا، اس پر یقین رکھنا، مرشد کی غیر موجودگی میں بھی اس کی موجودگی والی تعظیم کرنا وغیرہ وغیرہ۔ اردو کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اس کتاب کا نہایت ہی سہل ترجمہ کیا ہے جس میں ایک سے زائد عربی نسخوں سے مدد لی گئی ہے تاکہ اصل عربی عبارت میں موجود سقم کو دور کیا جائے۔

مخطوطات

اس کتاب کے کئی مخطوطات کتب خانوں میں دریافت ہو چکے ہيں۔

چوروم 756 اور یوسف آغا 4859

ترکی کے دو مختلف کتب خانوں میں موجود یہ دو مخطوطات درحقیقت ایک ہی مخطوط کے دو حصے ہیں۔ تدبیرات الہیہ کا پہلا مخطوط چوروم 756 میں ہے۔ یہ کل ملا کر 89 صفحات ہیں جو باب 1 سے 17 تک ہیں۔ اسی مخطوط کا دوسرا حصہ مکتبہ یوسف آغا میں موجود تھا جو باب نمبر 17 سے لے کتاب کے آخر تک ہے۔ عبد العزیز سلطان المنصوب کی تحقیق کے مطابق یہ ابن عربی کے ہاتھ کی تحریر ہے۔

اشاعت

ابن عربی نے اپنی کتاب مواقع النجوم میں اس کتاب کا تذکرہ کیا ہے جو 595 ہجری کی تحریر ہے، جس کی بنیاد پر اسے 591 ہجری تا 593 ہجری کے درمیان کی تحریر مانا جاتا ہے۔ اس کی سب سے قدیمی اشاعت 1919ء میں نابئرگ کی تحقیق سے شہر لیڈن میں مطبع برل سے ہوئی۔ دیگر اشاعتیں زہادہ تر عرب ممالک سے ہوئی ہیں، جیسے مکتبہ بحسون 1993، مکتبہ الثقافتہ الدینیہ 1998ء، دار الکتب العلمیہ 2004ء اور سعید عبد الفتاح کی تحقیق سے 2002ء میں مکتبہ الانتشار سے ہوئی ہے۔ جبکہ 1973ء اور 1992ء میں ترکی میں شائع ہوئی (ترکی ترجمہ) اور ترکی سے انگریزی ترجمہ 1997ء میں شائع ہوا۔ 2008ء میں اس کا پہلا اردو ترجمہ شائع ہوا۔

تراجم

  • ترکی، 1973ء میں
  • ترکی، 1992ء میں مصطفیٰ طاہر علی کا ترجمہ۔
  • انگریزی (مفاہیم)، شیخ طوس بیرک الجریری الخلوتی
  • اردو، 2008ء ابرار احمد شاہی

شروحات

شیخ عبد الغنی النابلسی کے شاگرد شيح البیتامی نے الفتوحات الربانیة فی شرح التدبیرات الہیہ کے نام سے اِس کی ایک شرح کی ہے جو نہایت مفید ہے۔ مزید دیکھیے شرح تدبیرات الہیہ

بیرونی روابط

ناشر : ابن العربی فاؤنڈیشن پاکستان

حوالہ جات