افغان مختلف معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے مثلاً

  • کوئی بھی چیز جس کا بنیادی طور پر افغانستان سے تعلق ہو مثلاً افغان لوگ، افغان خوراک، افغان ثقافت، افغان قالین وغیرہ
  • افغانستان کے رہنے والوں کو افغان کہا جاتا ہے۔ جس میں پشتو بولنے والے اور فارسی بولنے والے دونوں شامل ہیں۔
  • فارسی بولنے والے پشتونوں کے لیے افغان کا لفظ استعمال کرتے ہیں
  • انیسویں صدی اور بیسویں صدی میں آسٹریلیا میں اونٹ چلانے والوں کو افغان کہا جاتا تھا

افغان ترمیم

افغان کا ایرانی فارسی میں مطلب شور مچانے والی قوم ہے یہ بات ہمیں خانہ فرھنگ ایران میں فارسی کلاسز کے دوران برصغیر پاک و ہند کے نامور فارسی استاد محترم آقائی علی رضانقوی نے 1989 کے ماہ دسمبر میں بتائی تو یہ ہمارے لیے بالکل انوکھی تھی مگراس کے بعد سے جب افغان مسئلہ ابھرتاہے مجھے استاد محترم کی بات یاد آجاتی ہے افغان کے لغوی معنی افغانستان میں رہنے والے کے ہیں۔ مگر عموماً پشتو بولنے والے قبائل کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ بعض اوقات پٹھانوں اور افغانوں کے درمیان میں امتیاز کیا جاتا ہے۔ افغان کی اصطلاح درانیوں اور ان متعلقہ قبائل کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ لیکن یہ محض نام کا فرق ہے۔ یعنی ایرانی نام افغان قدرتی طور پر مغربی قبائل کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ پشتون مورخین کا دعویٰ ہے کہ افغان جلا وطن یہود نسل سے ہیں۔ ظاہر ان کے دلائل تاریخ سے ماخذ ہی نہیں ہیں۔ سب سے پرنی شہادت ایک ایرانی کتبہ میں جو تیسری صدی عیسوی کا ہے۔ یہ کلمہ ابگان کی صورت میں ملتا ہے۔ پرفیسر احمد دانی کا کہنا ہے کہ کلمہ افغان، اوگان یا اباگان تیسری صدی عیسویں (عہد ساسانی) اور چھٹی صدی عیسویں میں ملتا ہے۔ ایرانیوں نے کلمہ افغان استعمال کرنا شروع کیا جو آج تک مروج ہے۔ ہندی ہیت دان ورمہ مہرہ کی کتاب برہت سیمتہ میں یہ کلمہ اوگانہ کی شکل میں آیا ہے۔ اس کے کچھ عرصہ کے بعد چینی سیاح ہیوانگ سانگ کی سوانح حیات میں یہ کلمہ ایپوکین (اوگن) کی شکل میں ملتا ہے جو کوہستان کے شمال میں آباد تھے۔ ابتدائی دور کی مسلمان مصنفوں کی کتابوں میں یہ کلمہ سب سے پہلے ’حدود العالم‘ (323ھ/289ء) میں ملتا ہے، اس کے بعد الُعتبی (تاریخ یمنی) اور البیرونی نے بھی ذکر کیا ہے۔ فریدون کے زمانے میں ایک مشہور اور نامور پہلوان اوگان تھا اور بہادر و دلیر لوگوں کو اس نام سے تشبیہ دی جاتی تھی۔ فردوسی نے اپنے شاہنامہ میں مشہور بہادروں کو اوگان سے تشبیہ دی ہے۔ فردوسی نے اس کو اوغان اور ابن بطوطہ ان کا ذکر الافغان کے نام سے کرتا ہے۔ تیمور اپنی توزک میں اوغانیوں کا ذکر کیا ہے۔ قدیم ایران کے ہخامنشی خاندان کے بادشاہ دارا اول (چھی صدی عسوی) نے کتبہ نقش رستم میں خود کو ایرانی کا بیٹا اور آریا کی اولاد سے موسوم کیا ہے اس کتبہ میں آریہ کا تلفظ ’اُرِئی‘ ہے۔ یہی وجہ ہے میں میرا گمان تھا کہ افغانستان کے علاقہ میں ابتدا میں یہ کلمہ ’اُرِیَ‘ استعمال ہوا ہوگا اور بعد میں غان نسبتی کلمہ لگ کر اورغان ہو گیا اور کثرت تکرار سے ر خارج ہو گیا۔ اس طرح یہ کلمہ اوغان بن گیا جو افغان کے لیے ابتدا میں استعمال ہوتا تھا۔ مگر میں ترکوں کے مطالع سے اس نتیجے پر پہنچا کہ ایسا ہونا یقینی نہیں ہے۔ یہ کلمہ اوغان اوغہ سے نکلا ہے جس کی ’گ‘ اور ’غ‘ سے مختلف شکلیں ہیں۔ حدود العالم ہے کہ ننہار (ننگر ہار) موجودہ جلال آباد کا بادشاہ اپنے کو مسلمان کہتا ہے اور تیس بیویاں رکھتا ہے جو مسلمان، افغان اور ہندو ہیں۔ اس فقرے میں مسلمان کی تفریق معنی خیز ہے۔ اس جملہ سے واضح ہوتا ہے کہ افغان مسلمانوں سے ہٹ کر ایک علحیدہ قومیت اور مذہب رکھتے تھے۔ کتاب الاغانی کی کے مطابق رود گرگان کے ترکوں نے ایرانیوں کی زبان و مذہب اختیار کر چکے تھے اور وہ سانیوں دور میں ہی اس علاقے کو فتح کرچکے تھے۔ اس لیے ساسانیوں کے زمانے میں غالباََ چھٹی صدی عیسوی میں ترک اس علاقہ کو فتح کرچکے ہوں گے۔

جو ترک قبائل بلاد اسلام کے قریبی ہمسائے تھے۔ ان میں ایک قبیلہ غز تھا۔ جسے اغوز بھی پکارا جاتا تھا اور اسی نسبت سے بلاد اسلام میں ترکی النسل قبائل کو اغوز کہا جاتا تھا۔ اغوز یا غز ْقبیلے نے دوسرے ترک قبائل کے ساتھ غالباً چوتھی اور پانچویں صدی ہجری درمیان میں اسلام قبول کر لیا تھا۔

غالب امکان یہی ہے کہ افغانستان میں رہنے والے ترک قبائل جنہیں اوغوز (جمع کے صیفہ میں) اور فرد واحد کو اوغہ پکارا جاتا تھا۔ یہ اوغہ رفتہ رفتہ ان ترک قبائل کے لیے پکارا جاتا ہو گا جنھوں نے مقامی ثقافت، زبان اور مذہب اختیار کر لیا تھا۔ یہ کلمہ اوغہ جس کی جمع اوغان تھی رفتہ رفتہ تمام مقامی قبائل کے لیے پکاجانے لگا اور بعد میں یہ بھول گئے کہ یہ کلمہ ترک نژاد قبائل کے لیے یہ کلمہ استعمال ہوتا تھا۔ یہی وجہ ہے تمام پشتون قبائل کو افغان بولا جاتا ہے۔ آج بھی ہزارہ قبائل پٹھانوں کو اوغہ کہتے ہی۔ ایران میں گان کا کلمہ اکثر نسبت کے لیے استعمال ہوا ہے۔ مثلاً گر گان۔ جب کہ افغانستان میں نسبت کے لیے اس کی ترکی شکل میں یہ کلمہ غان آیا ہے۔ یہ شہروں اور علاقوں کے ناموں میں عام استعمال ہوا ہے۔ مثلاً لمغان، شبرغان، پغان، دامغان اور کاغان وغیرہ۔ اس طرح یہ کلمہ اوغہ + غان = اوغان ہو گیا اور یہ اوغان رفتہ رفتہ افغان ہو گیا کیوں کہ یہ اکژ زبانوں میں ’و‘ ’ف‘ سے بدل جاتا ہے۔

مزید دیکھیے ترمیم