اقالہ خرید و فروخت میں دوشخصوں کے مابین جو عقد ہوا اس کے اُٹھادینے کو اقالہ کہتے ہیں۔
اقالہ میں بیچنے اور خریدنے والے کا قبول کرنا ضروری ہے تنہا ایک شخص اقالہ نہیں کرسکتاہے۔ یہ لفظ کہ میں نے اقالہ کیا، چھوڑ دیا، فسخ کیا یا دوسرے کے کہنے پر بیچی ہوئی چیز یا قیمت کا پھیر دینا اور دوسرے کا لے لینا اقالہ ہے۔ نکاح، طلاق، عتاق، ابراء کا اقالہ نہیں ہو سکتا۔ دونوں میں سے ایک اقالہ چاہتا ہے تودوسرے کو منظور کرلینا، اقالہ کر دینا مستحب ہے اور یہ مستحق ثواب ہے۔
ابوہریرہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے کسی مسلمان سے اقالہ کیا، قیامت کے دن اﷲ تعالیٰ اُ سکی لغزش دفع کر دے گا۔ [1]

شرائط اقالہ ترمیم

اقالہ کے شرائط یہ ہیں :

  • 1 دونوں کاراضی ہونا۔
  • 2 مجلس ایک ہونا۔
  • 3 اگر بیع صرف کا اقالہ ہو تو اُسی مجلس میں دومتبادل چیزوں پرقبضہ کرناہو۔
  • 4بیچی ہوئی چیزیعنی سامانکا موجود ہوناشرط ہے ثمن کا باقی رہنا شرط نہیں۔
  • 5بیچی ہوئی ایسی چیز ہو جس میں خیار شرط خیار رویت خیار عیب کی وجہ سے بیع فسخ ہو سکتی ہو، اگر مبیع میں ایسی زیادتی ہو گئی ہوجس کی وجہ سے فسخ نہ ہو سکے تو اقالہ بھی نہیں ہو سکتا۔
  • 6بیچنے والے نے قیمت خریدارکو قبضہ سے پہلے ہبہ نہ کیا ہو۔[2][3]

حوالہ جات ترمیم

  1. سنن ابن ماجہ،کتاب التجارات،باب الإقالۃ
  2. عالمگیری، درمختار
  3. بہارشریعت ،ج2،حصہ 11،ص734