اقراص خون (صفیحہ) (بہ الفاظ انگریزی Blood Platelets) خون میں موجود ہوتے ہیں جن کو ہم خون کی ٹکیاں بھی کہہ سکتے ہیں۔ جیساکہ ہم جانتے ہیں کہ خون میں سرخ ذرات اور سفید ذرات ہوتے ہیں اسی طرح خون میں اقراص بھی پائے جاتے ہیں جو ہڈی کے گودے میں بنتے ہیں۔ یہ سفید ذرات کی طرح بے رنگ ہوتے ہیں تاہم ان کی شکل سرخ ذرات کی طرح طشتری نما ہوتی ہے اور جسامت میں سرخ ذرات کا ایک تہائی ہوتے ہیں۔ ایک مکعب ملی میٹر میں ان کی تعداد قریب قریب اڑھائی لاکھ ہوتی ہے۔ یہ خون میں کو جمانے میں مدد دیتے ہیں اور زخمی ہوجانے پر ان میں سے خاص قسم کا مادہ خارج ہوتاہے جو خون کو دہی کی طرح جما دیتا ہے۔

پلیٹلیٹس کیا ہوتے ہیں؟

ترمیم

پلیٹلیٹس انسان کے خون کے اندر گردش کرتے پلیٹ کی شکل کے چھوٹے چھوٹے ذرے ہوتے ہیں جن کے گرد جھلی ہوتی ہے۔ ان کا کام جسم سے خون کی انخلا کو روکنا ہوتا ہے۔

یہ خون کی انجماد میں مدد دیتے ہیں یعنی ان کی غیر موجودگی میں کسی بھی زخم کی صورت میں خون بہتا رہے گا۔

امراض باطنیہ کے ماہر کہتے ہیں کہ:- 'پلیٹلیٹس بنیادی طور پر بلیڈنگ کو پلگ کرتے ہیں۔ یہ خون کے ساتھ گردش کرتے رہتے ہیں اور کہیں بھی کٹ یا خراش لگنے کی صورت میں وہاں جمع ہو کر کلاٹ (خون کا لوتھڑے) بنا لیتے ہیں‘۔

پلیٹلیٹس کا کام

ترمیم

اس کو یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ پلیٹلیٹس چھوٹی چھوٹی ایسی پلیٹس ہیں جو کسی بھی جگہ جہاں خون کا اخراج ہو اس مقام پر پہنچ کر وہاں بند باندھ دیتے ہیں۔ خون کا یہ اخراج اندرونی بھی ہو سکتا ہے اور بیرونی بھی۔

بیرونی طور پر جسم پر زخم آنے کی صورت میں بہنے والا خون اور ایسی خراشیں یا زخم جو اندرونی طور پر آتی ہیں، پلیٹلیٹس ان سے خون کو رسنے یا خارج ہونے سے روکتے ہیں۔

امراض باطنیہ کے ماہر کہتے ہیں کہ:- یہ عمل انسان کے جسم میں جاری رہتا ہے۔

'ہم جو کھانا کھاتے ہیں اس دوران اندرونی خراشیں آ سکتی ہیں یا جیسا کہ اگر سر پر چوٹ آئے تو دماغ کے اندر بہت نازک کیویٹیز ہوتی ہیں اور اگر وہاں اندورنی طور پر خون کا اخراج ہو تو اس سے نقصان ہو سکتا ہے‘۔

پلیٹلیٹس کی کمی سے نقصان ہو سکتا ہے پلیٹلیٹس کی غیر موجودگی میں خون دماغ میں جمع ہونا شروع ہو جاتا ہے اور اس میں غیر معمولی دباؤ کا سبب بن سکتا ہے۔ اور اس سے کئی پیچیدگیاں جنم لے سکتی ہیں۔


'اگر پلیٹلٹس کی جسم میں کمی ہو تو برین ہیمریج یعنی دماغ میں نس کے پھٹنے یا خون کے رسنے کا عمل شروع ہونے کا خطرہ بہت بڑھ جاتا ہے‘۔

امراض باطنیہ کے ماہر بتاتے ہیں کہ یہی وجہ ہے کہ ایک صحت مند جسم میں پلیٹلیٹس کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے ساڑھے چار لاکھ تک ہوتی ہے۔ یہ انسان کی بون میرو یعنی ہڈی کے گودے کے اندر ضرورت کے مطابق قدرتی طور پر بنتے رہتے ہیں۔

اگر پلیٹلیٹس دس ہزار سے کم ہو جائیں تو جسم میں ان کی زیادتی اور کمی، دونوں صورتیں عموماً کسی بیماری کی علامت ہوتی ہیں۔

امراض باطنیہ کے ماہر کے مطابق 'کسی انسان کے جسم میں پلیٹلیٹس کی تعداد پچیس ہزار یا دس ہزار تک بھی گر جانا زیادہ پریشانی کی بات نہیں ہوتی۔

'اس کے بعد مصنوعی طور پر اس مریض کو پلیٹلیٹس لگا کر ان کی تعداد بڑھا دی جاتی ہے۔ یہ ضروری ہے کہ مینیؤل طریقے سے بھی ٹیسٹ کیا جائے تاکہ ان کی صحیح تعداد کا درست اندازہ لگایا جا سکے‘۔

تاہم اگر ان کی تعداد دس ہزار سے گر جائے تو اس صورت میں جسم سے خون کے انخلا کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

بلیڈنگ یا خون کا انخلا اندرونی اور جلد کے نیچے خراشوں کی صورت میں بھی ہو سکتا ہے۔ اس میں انسان کی ناک سے بھی خون آ سکتا ہے۔ اگر بیرونی طور پر کوئی خراش یا زخم لگ جائے تو خون کا بہاؤ نہیں رکتا۔

پلیٹلیٹس کم کیوں ہوتے ہیں؟

ترمیم

امراض باطنیہ کے ماہر کے مطابق جسم میں پلیٹلیٹس کی کمی کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ان میں انفیکشن، گردوں کی بیماری، کئی ادویات کے اثرات یا جسم کے مدافعاتی نظام میں خرابی شامل ہیں۔

'آٹو امیون سسٹم کی وجہ سے بھی پلیٹلیٹس میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔ اس میں ہوتا یہ ہے کہ جسم اپنے ہی مدافعاتی نظام کے ساتھ لڑنا شروع کر دیتا ہے۔'

’امراض قلب کے مریضوں میں پلیٹلیٹس کو کام سے روکا جاتا ہے‘

تاہم امراض باطنیہ کے ماہر کے مطابق دل کے امراض کے وہ مریض جن کے جسم میں سٹینٹس ڈالے گئے ہوں انھیں ایسی ادویات دی جاتی ہیں جو پلیٹلیٹس کو غیر فعال کرتی ہیں۔

'ان ادویات کی مدد سے پلیٹلیٹس کو اپنا کام کرنے سے روکا جاتا ہے تاکہ وہ کلاٹ یا خون کا لوتھڑا نہ بنا پائیں۔'

سٹینٹ کی صورت میں قدرتی طور پر پلیٹلیٹس سٹینٹ کی جگہ پر یا اس کے دل کی شریانوں میں حرکت کی وجہ سے پیدا ہونے والی خراشوں میں جا کر کلاٹ بنا دیتے ہیں۔ اس طرح مریض کے دل کو خون کی فراہمی میں کمی ہو جاتی ہے جس سے دل کا دورہ پڑنے کا خطرہ ہو سکتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ایسے مریضوں کے معالج انھیں ان کی ضروریات کے مطابق ایسی ادویات یا ’اینٹی پلیٹلیٹ ایجنٹ‘ تجویز کرتے ہیں جو پلیٹلیٹس کی صلاحیت کو محدود کر دیتی ہیں یعنی انھیں اپنا کام کرنے سے روکتی ہیں۔