اللہ یار خاں جوگی
اللہ یار خاں جوگی (1870-1956) [1] انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے شروع میں ہو گذرے ہیں۔ آپ بہت چوٹی کے ادیب تھے۔ انھوں نے نے گرو گوبند سنگھ[2] جی کے صاحبزادوں کی شہادت سے متعلق دو مرثیئے لکھے۔ اللہ یار خاں جوگی ایک بھولے بسرے مہان شاعر تھے جن کا پورا نام حکیم اﷲ یار خاں جوگی تھا، جنھوں نے سنّ 1913 میں چھوٹے صاحبزادوں صاحبزادہ زورآور سنگھ (9 سال) اورصاحبزادہ فتح سنگھ (7 سال) کی شہادت کے بارے سچے آنسووں میں تر طویل نظم شہیدانِ وفا لکھ کے ادبی حلقوں میں ہل چل مچا دی تھی۔
لباس
ترمیمان کا لباس رئیسانہ تھا اور وہ اچکن اور شلوار پہنے امامِ مجلس لگتے تھے۔ یہ پوشاک ان پر بہت جچتی تھی۔ان کا قد لمبا، جسم گندھا ہوا، مونچھیں چھوٹی اور داڑھی خسخسی تھی اور یوں ان کی شکل صورتَ ایک ایرانی میر کی جھلک دیتی تھی۔
گنجِ شہیداں
ترمیماﷲ یار خاں جوگی اور ان کی نظم ‘شہیدانِ وفا’ ہمارا قیمتی ورثہ ہے (انھوں نے 1915 میں ساکہ چمکور صاحب کو بھی ‘گنجِ شہیداں’ کے نام سے قلمبند کیا)۔ اپنی تاریخ کی امیری میں گُم سکھ قوم کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اپنے ورثے کو سنبھالنا زندہ قوموں کا اولین فریضہ ہوتا ہے۔ 'گنجِ-شہیداں' 1915 کے درمیان چھپی |
- شہیدان وفا جس میں چھوٹے صاحبزادوں کی شہادت کا دل سوز بیان کیا گیا ہے۔
ٹھوڑی تک اینٹیں چن دی گئیں منہ تک آ گئیں ۔
بینی کو ڈھانپتے ہی وہ آنکھوں پہ چھا گئیں ۔
ہر چاند سی جبین کو گھن سا لگا گئیں ۔
لخت جگر گورو کے وہ دونوں چھپا گئیں ۔
جوگی جی اس کے بعد ہوئی تھوڑی دیر تھی ۔
بستی سرہند شہر کی اینٹوں کا ڈھیر تھی۔
- گنج شہیداں میں بڑے صاحبزادوں کی شہادت کا جگر پاش ذکر کیا گیا ہے۔
گلہ نہیں تو توجہ دلانا چاہتا ہوں،
اپیل کرتا ہوں سنگھوں کی کربلا کے لیے
غلط اک حرف ہو جوگی تے پھر ہزاروں میں،
جواب دہ ہوں سخنہائے نہ رواں کے لیے'
مرثیئے
ترمیمبسّ ایک ہند میں تیرتھ ہے یاترا کے لییے ۔
کٹائے باپ نے بچے جہاں خدا کے لییے ۔