حالات زمانے کے کچھ ایسے ہوئے تبدیل

قاصر ہے قلم جن کی رقم کرنے سے تفصیل

وہ مہر و وفا عشق و محبت کے ترانے

اب نوحہ غم درد و الم میں ہوئے تحلیل

کلیوں کی وہ بارات عنادل کے وہ نغمات

پھولوں کی وہ برسات ہوئی اولوں میں تبدیل

انسان کو اب پیاس ہے انساں کے لہو کی

مشروب وفا جام محبت کی ہے تعطیل

آیا ہے تمدن کے ضوابط میں تغیر

اشرار کی توقیر ہے اشراف کی تذلیل

فیلان حکومت کے عساکر کو خبر دو

باقی ہیں فضاؤں میں ابھی تک وہ ابابیل

کھنڈر نہ بن جائیں تعیّش کے محلات

تختہ میں نہ ہوجائیں کہیں تخت بھی تبدیل

مشرق نے کیا نور سے مغرب کو منور

مغرب نے کی مشرق کو مگر نار کی ترسیل

دیوانہ قرائن سے یہی ہوتا ہے معلوم

بجھنے کو ہے اب بزم جہاں کی قندیل

(کلام؛ اللّہ یار دیوانہ صاحب)