"اَلْمَکَّتَان" یہ مدینہ منورہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے جس کے معنی اہل مکہ کا اہل مدینہ میں گھل مل جانا کے ہیں۔ سعد بن سرح نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے محاصرے کے بارے میں کہا میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ معاملہ (محاصرہ) طول پکڑتا جا رہا ہے جبکہ مکتان (مدینہ) میں ہمارے مددگار بھی کم ہیں ۔ نصر بن حجاج کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب مدینہ پاک سے معزول کر دیا کیونکہ ان کا حسن دیکھ کر ایک عورت ان کے حق میں شعر پڑھ رہی تھی تو اس پر اس نے لکھ بھیجا: میرے بارے میں آپ کا گمان ایک حقیقت ہے چنانچہ اس کے بعد میرے پاس یہاں ٹھہرنے کا کوئی جواز نہیں لہذا میں ہم نشین سے بات نہیں کر سکتا ۔ مجھے تہمت کے بغیر معزول کر دیا گیا حالانکہ میرا مقام مکتین (مدینہ ) میں تھا۔ ظاہر یہ ہے کہ مکتین سے یہاں مراد مدینہ طیبہ ہے کیونکہ نصر بن حجاج اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ دونوں کے واقعات مدینہ ہی میں ہوئے تھے۔ مدینہ پر یہ لفظ اس لئے بولا گیا کہ اہل مکہ یا ان کا اکثر حصہ یہاں آپہنچا تھا اور وہ لوگ اہل مدینہ میں گھل مل گئے تھے۔ برهان قیراطی نے مکتین کا لفظ مکہ کے ناموں میں شمار کیا ہے تقی فاسی کہتے ہیں کہ شاید برھان نے یہ لفظ ورقہ بن نوفل کے قول سے لیا تھا۔ «‌بِبَطْنِ ‌الْمَكّتَيْنِ عَلَى رَجَائِي» میں سمجھتاہوں کہ تمہاری بات کا ظہور مکہ کے دونوں بطنوں کے درمیان ہوگا۔[1][2]

حوالہ جات

ترمیم
  1. سيرة ابن هشام (1/ 191)دار إحياء التراث العربي، بيروت
  2. وفاء الوفا باخبار دار المصطفے، جلد 1،صفحہ 70،علامہ نور الدین علی بن احمد السمہودی، ادارہ پیغام القرآن اردو بازار لاہور