اگر یہ آپ کا مطلوبہ صفحہ نہیں تو دیکھیے، امالہ (ضدابہام)

امالے کا لفظی مطلب ہے ’جُھکنا۔‘ انگریزی میں اسے (declension) اور اس عمل کو (to decline) کہا جاتا ہے۔ جب یہ اصطلاح اردو گرامر میں استعمال کی جاتی ہے تو اس کے تحت کسی لفظ کے آخر میں آنے والے الف یا الف سے ملتی جلتی کسی دوسری آواز کو ے سے بدل دیا جاتا ہے۔

اس کی چند مثالیں دیکھیے:

لڑکا: لڑکے نے کھانا کھایا۔ گھوڑا: گھوڑے نے دوڑنا شروع کیا۔ کتا: کتے نے چھلانگ لگائی۔ مدینہ: مولا مدینے بلا لو مجھے۔ اب جب کہ ہم امالہ کے بارے میں بنیادی معلومات حاصل کر چکے ہیں، اس کے چند اصول بھی ذہن نشین کر لیجیے۔

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ہر لفظ کا امالہ نہیں ہو سکتا۔ اس کی چند شرائط ہیں۔

امالہ صرف ان الفاظ کا بھی کیا جاتا ہے جن کے آخر میں یا تو الف ہو یا کوئی ایسا حرف ہو جو بولنے میں الف کی طرح لگے۔ ایسے الفاظ کی مثالیں ہ اور ع ہیں، جو اردو میں الف کی طرح سنائی دیتی ہیں۔ بچہ: بچے نے کھلونا توڑ دیا حملہ: حملے میں ملوث افراد صدمہ: صدمے کے اثرات مسئلہ: مسئلے کی وجوہات جمعہ: جمعے کا بابرکت دن موقع: موقعے پر موجود لوگ تنازع: تنازعے کے بعد کی صورتِ حال امالہ صرف مذکر الفاظ کا ہوتا ہے، مونث کا امالہ نہیں کیا جاتا۔ مثلاً لڑکی نے کھانا کھایا، گھوڑی نے دوڑنا شروع کیا، کتیا نے چھلانگ لگائی۔ ان تمام الفاظ میں اسم نہیں بدلا، حالانکہ آخری اسم (کتیا) کے آخر میں الف بھی موجود تھا۔ مشہور شہروں اور جگہوں کے ناموں کا امالہ بھی اسی اصول کے تحت کیا جاتا ہے، یعنی اگر کسی شہر کا نام الف یا اس سی ملتی جلتی آواز پر ختم ہوتا ہو تو اس کا امالہ کیا جائے گا۔ مکہ: مکے کی شان مدینہ: مدینے کے انوار سرگودھا: سرگودھے کے مالٹے آگرہ: آگرے کی تاریخ کوئٹہ: کوئٹے کا موسم بصرہ: بصرے کی کھجور ڈھاکہ: ڈھاکے کی ململ جن الفاظ کا امالہ نہیں ہوتا:

شہروں کے نام کا امالہ تو کیا جاتا ہے، لیکن ملکوں یا براعظموں کے ناموں کا امالہ نہیں کیا جاتا۔ مثال کے طور پر برطانیہ، امریکا، افریقہ، کینیا، کینیڈا، سری لنکا، آسٹریلیا، کوریا، چائنا، ارجنٹینا، البانیہ، بوسنیا، چیچنیا، سربیا، وغیرہ مذکر بھی ہیں اور ان کے آخر میں الف یا ہ بھی آتی ہے، لیکن اس کے باوجود ان کا امالہ نہیں کیا جاتا، کیوں کہ یہ اردو تہذیبی دنیا کا حصہ نہیں ہیں اور اردو ذخیرۂ الفاظ میں ابھی پوری طرح سے رچے بسے نہیں۔ اردو تہذیبی دنیا سے مراد ہندوستان، پاکستان اور مشرقِ وسطیٰ کے شہر ہیں جن سے ہمارے مذہبی اور ثقافتی روابط ہیں۔ وہ شہر یا جگہیں، جن کا تعلق اردو تہذیبی دنیا سے نہیں ہے، ان کا امالہ بھی نہیں کیا جاتا۔ اس اصول کے تحت کیلیفورنیا، کیرولائنا، فلاڈیلفیا، منیلا، آٹووا، انقرہ، بارسلونا، کینبرا، ایڈنبرا، وغیرہ کا امالہ نہیں کیا جائے گا۔ وہ الفاظ جن کی جمع نہیں بنائی جاتی، ان کا امالہ بھی نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر فصیح اردو میں ابا، دادا، چچا، پھوپھا، دیوتا، راجا، وغیرہ کی جمع نہیں بولی جاتی، اس لیے ان کا امالہ بھی نہیں ہوتا۔


بعض لوگوں کا اصرار ہے کہ امالہ بولتے وقت تک تو ضرور کیا جائے لیکن انھیں امالے کے بغیر لکھا جائے۔ یہ بات صریحاً غیر منطقی ہے۔ بھارت اور پاکستان دونوں کی اردو املا کمیٹیوں نے سفارش کی ہے کہ جو لفظ جیسے بولا جاتا ہے ویسے ہی لکھا جائے۔ اس لیے دھماکا کے وقت، موقع پر پہنچ گئے، واقعہ کے بعد کی بجائے دھماکے کے وقت، موقعے پر اور واقعے کے بعد بولا اور لکھا جائے۔

اور آخر میں ایک سوال: میر تقی میر کا ایک شعر ہے جو ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔

         مکے  گیا   مدینے  گیا  کربلا  گیا


         جیسا گیا تھا ویسے ہی چل پھر کے آ گیا

اس شعر میں مکہ اور مدینہ کا امالہ تو ہوا ہے، لیکن کربلا کا نہیں، حالانکہ اس کے آخر میں الف ہے۔ کیوں؟

جواب: چونکہ کربلا مؤنث ہے اور مؤنث کا امالہ نہیں ہوتا اس لیے مکے مدینے کے ساتھ کربلا بنا امالے کے لکھا گیا