علامہ محمد امین خیال کا شمار گوجرانوالہ کے استاد شعرا میں ہوتا ہے۔

پیدائش

ترمیم

وہ 1932ء کو گرجاکھ (گوجرانوالہ) میں پیدا ہوئے۔ اصل نام محمد امین ہے۔[1]

تعلیم

ترمیم

انھوں نے انٹرمیڈیٹ کا امتحان ایم اے ہائی اسکول گوجرانوالہ سے پاس کیا۔ علوم شرقیہ (فاضل اردو ۔ پنجابی) کے امتحانات پاس کیے۔ بی اے پرائیویٹ کیا۔

تدریس

ترمیم

انھوں نے تدریس کا پیشہ اختیار کیا۔ 1989ء میں بطور ہیڈ ماسٹر ریٹائر ہوئے۔ اسلامیہ کالج گوجرانوالہ میں پنجابی پڑھاتے رہے۔ انھوں نے ہزاروں طلبہ کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا۔ استاد کا پیشہ انھوں نے مشن سمجھ کے اختیار کیا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی بچے ان سے گھر پڑھنے آتے۔ اس سلسلے میں وہ معاوضہ نہیں لیتے تھے۔

شعر و ادب

ترمیم

اردو اور پنجابی شاعری میں یکساں مہارت تھی۔ علم عروض پر انھیں عبور حاصل تھا۔ ان کی شناخت پنجابی شاعری کے حوالے سے ہوئی۔ ان کی کتابوں کی تعداد چالیس کے لگ بھگ ہے۔ اپنے چھوٹے صاحبزادے بیرسٹر محمد عون شاہد کے پاس 2004ء میں گوجرانولہ سے لاہور آ گئے اور تا دم حیات وہیں رہے،[2]

وفات

ترمیم

جولائی 2014ء کو لاہور میں وفات پائی۔ تدفین گرجاکھ (گوجرانوالہ) میں ہوئی۔ جہاں ان کا مزار ہے۔[3]

میراث

ترمیم

بیرسٹر محمد عون شاہد ان کے ادبی وارث بھی ہیں۔ انھوں نے خیال صاحب کے چار مجموعے کلیات کی شکل میں چھپوائے اور اس کی تعارفی تقریب پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف لینگوئج آرٹ اینڈ کلچر (پلاک) میں کروائی۔ شاعری کے علاوہ تنقید اور تحقیق پر ان کا کام ہے۔ پنجابی میں احادیث کا ترجمہ کرنے کے علاوہ فقہ کے حوالے سے ایک کتاب لکھی۔ تحقیقی کتاب ’’ناراں طلے دیاں تاراں‘‘ ہے، ادبی تنظیموں بزم اقبال اور بزم وفا سے وہ وابستہ رہے۔ امین خیال کی وفات کے بعد ان کی شخصیت، شاعری اور ادبی خدمات کے حوالے سے اب تک پی ایچ ڈی کے تین مقالے لکھے جا چکے ہیں۔ [4]

’’تاریخ گوجرانوالہ‘‘ لکھی جو ان کی زندگی میں شائع نہ ہو سکی۔ حال ہی میں اس کتاب کو ان کے صاحبزادے بیرسٹر محمد عون شاہد نے شائع کیا ہے۔ یہ حصہ اول ہے۔ باقی والیم بھی وہ شائع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ’’تاریخ گوجرانوالہ‘‘ ان کا تاریخی کام ہے۔ پہلے حصے میں انھوں نے گوجرانوالہ کی سیاسی تحریک اور یہاں کی چند اہم شخصیات کے بارے میں معلومات دی ہیں۔ ان میں آزادی کی تحریک اور گوجرانوالہ، آزادی کے مجاہدین کے بارے میں بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔’’

حوالہ جات

ترمیم