انا لله و انا الیه راجعون

قرانی آیت

انا لله و انا الیہ راجعون (عربی: إِنَّا لِلَّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ) آیت استرجاع کہلاتی ہے جو قرآن میں سورۃ البقرہ کی آیت 156 سے ماخوذ ہے۔ اس کا مطلب ہے: "ہم خدا کے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔" جب مسلمان کسی کی موت یا مصیبت کی خبر سنتے ہیں تو یہ آیت پڑھتے ہیں۔ وہ اس آیت کو تعزیت کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں اور مصیبت کے وقت صبر کا مطالبہ کرتے ہیں۔

تلاوت إِنَّا ِلِلَّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ 2:156

فضائل ترمیم

احادیث میں مصیبت کے وقت ’’اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّا اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ‘‘ پڑھنے کے بہت سے فضائل بیان کیے گئے ہیں ، ان میں سے 3 فضائل یہ ہیں :

  1. اُم المؤمنین حضرت ام سلمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں :میں نے سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس مسلمان پر کوئی مصیبت آئے اور وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ’’اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّا اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ‘‘ (پڑھے اور یہ دعا کرے) ’’اَللّٰہُمَّ أْجُرْنِیْ فِیْ مُصِیْبَتِیْ وَاَخْلِفْ لِیْ خَیْرًا مِّنْہَا ’’اے اللہ!میری ا س مصیبت پر مجھے اجر عطا فرما اور مجھے اس کا بہتر بدل عطا فرما ‘‘تو اللہ تعالیٰ اس کو اس سے بہتر بدل عطا فرمائے گا۔ حضرت ام سلمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں :جب حضرت ابو سلمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فوت ہو گئے تو میں نے سوچا کہ مسلمانوں میں حضرت ابو سلمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے بہتر کون ہوگا؟ وہ تو پہلے گھر والے ہیں جنھوں نے حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف ہجرت کی۔ بہر حال میں نے یہ دعا کہہ لی، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بدلے مجھے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ عطا فرما دیے (جو حضرت ابو سلمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے بہت بہتر تھے)[1]
  2. حضرت امام حسین بن علی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس مسلمان مرد یا عورت پر کوئی مصیبت پہنچی اور وہ اسے یاد کر کے ’’اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّا اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ‘‘ کہے، اگرچہ مصیبت کا زمانہ دراز ہو گیا ہو تو اللہ تعالیٰ اُس پر نیا ثواب عطا فرماتا ہے اور ویسا ہی ثواب دیتا ہے جیسا اس دن دیا تھا جس دن مصیبت پہنچی تھی.[2]
  3. ایک مرتبہ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا چراغ بجھ گیا تو آپ نے ’’اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّا اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ‘‘ پڑھا۔ عرض کیا گیا کیا یہ بھی مصیبت ہے؟ ارشاد فرمایا: جی ہاں! اور ہر وہ چیزجو مومن کو اذیت دے وہ اس کے لیے مصیبت ہے اور اس پر اجر ہے۔[3]

مکمل آیت ترمیم

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ

  وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوفْ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الأَمَوَالِ وَالأنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ       الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُواْ إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ       أُولَـئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَـئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ    

[سورة البقرة:155- 157]

حوالہ جات ترمیم

  1. مسلم، کتاب الجنائز، باب ما یقال عند المصیبۃ، ص457، الحدیث: 3(918)
  2. مسند امام احمد، حدیث الحسین بن علی رضی اللہ تعالٰی عنہ، 1 / 429، الحدیث: 1734
  3. در منثور، البقرۃ، تحت الآیۃ: 156، 1 / 380