انت یشٹی یا انتِم سنسکار موت کی آخری ہندو رسومات کو کہا جاتا ہے۔[2] انت یشٹی (अन्त्येष्टि) سنسکرت لفظ ”انتیہ“ اور ”یشٹی“ کا مرکب ہے جس کا مطلب ”آخری“ اور ”قربانی“ ہے۔[3] اسی طرح انتم سنسکار سے مراد ”آخری مقدس تقریب یا انتقال کی آخری رسم ہے “۔[4] اسے انتم کریہ بھی کہتے ہیں۔[2] یہ رسوماتِ ارتحال ہندو روایت میں سنسکار کہلانے والے اُن عبوری مراحل میں آخری مرحلہ ہے جن کا سلسلہ جنم سے قبل یعنی حمل کے آغاز سے شروع ہوتا ہے۔[5][6]

1820ء کی ایک مصوری میں جنوبی ہند میں ایک ہندو جنازے کا جلوس دکھایا گیا ہے۔ بائیں جانب، دریا کے قریب، چتا تیار ہے۔ مکھ اگنی داتا آگے آگے چل رہا ہے جبکہ میت کو سفید کپڑے میں لپیٹ کر چتا کی طرف لے جایا جا رہا ہے۔ پیچھے رشتہ دار اور احباب جلوس کی صورت میں چل رہے ہیں۔[1]

انتم سنسکار کی تقریب کی تفصیلات آنجہانی کے علاقہ، ذات پات، جنس اور عُمر پر مبنی ہوتی ہیں۔[7][8]

مقدس متون

ترمیم

ہندو مت کے قدیم متون میں انت یشٹی کی رسم ایک ایسے نظریے پر مبنی ہے جس کے مطابق جملہ جانداروں کا عالمِ صغیر دراصل پورے جَگَت (کائنات) کے عالمِ کبیر کا عکس ہے۔[9] روح (آتما) کو اس رسم میں ازلی و ابدی تسلیم کیا گیا ہے اور یہ عقیدہ ہے کہ یہ روح آخری رسومات کے ذریعے آزاد ہو جاتی ہے۔ جسم اور کائنات دونوں کو ہندو مکاتبِ فکر میں عارضی اور فنا ہونے والے ذرائع کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ہندو مقدس متون کے مطابق انسانی جسم اور کائنات عناصرِ خمسہ (ہوا، پانی، آگ، زمین اور خلا) پر مشتمل ہیں۔[9] یہ آخری رسم جسم کو انہی عناصر کی طرف لوٹاتی ہے جہاں سے وہ آیا تھا۔[10][9]

اس عقیدے کی بنیاد ویدوں میں پائی جاتی ہے خاص طور پر رِگ وید کے حصہ 10۔16 میں جہاں ایک بھجن میں یوں التجا کی گئی ہے:[11]

اے اگنی، اسے مت جلا؛ نہ اسے بھسم کر؛ نہ اس کی کھال یا جسم کو جھلسا۔
جب تُو، اے جات وید، اسے پکا کر تیار کر دے؛ تو اسے اس کے آبا و اجداد کے پاس روانہ کر دینا۔
جب تُو، اے جات وید، اسے پکا کر تیار کر دے؛ تو اسے اس کے آبا و اجداد کے سپرد کر دینا۔
جب وہ (اگلی) زندگی کے راستے پر روانہ ہو؛ تو دیوتاؤں کی مرضی کے مطابق وہاں چلے۔
تیری آنکھ سورج کی طرف جائے؛ تیری سانس ہوا میں شامل ہو۔ جیسا مناسب ہو، آسمان اور زمین کی طرف روانہ ہو۔
یا اگر تیرے لیے پانیوں کا مقدر مقرر کیا گیا ہو؛ تو وہاں چلا جا۔ اپنے اعضا کے ساتھ پودوں میں جا بس۔

رِگ وید کے ہی حصہ 10۔18 میں کسی بچے کی وقت سے پہلے موت کی صورت میں تدفین سے متعلق بھجن پائے جاتے ہیں، جن میں دیوتا مِرتیو سے التجا کی گئی ہے کہ ”ہماری بیٹیوں اور بیٹوں کو گزند نہ پہنچایو“ اور پرتھوی سے استدعا کی گئی ہے کہ وہ اس بچے کو نرمی اور حفاظت سے اپنی آغوش میں لے لے جیسے نرم اون میں لپیٹا گیا ہو۔[12]

ہندو آخری رسومات

ترمیم
 
مہاتما گاندھی کی آخری رسومات، 31 جنوری 1948ء کو راج گھاٹ پر انجام دی گئیں۔ اس موقع پر سردار ولبھ بھائی پٹیل، جواہر لعل نہرو، لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور لیڈی ماؤنٹ بیٹن، مولانا آزاد، راجکماری امرت کور، سروجنی نائیڈو اور دیگر قومی رہنما شریک تھے۔ ان کے بیٹے دیوداس گاندھی نے چتا کو اگنی دی۔[13]
 
وارانسی، بھارت میں واقع منی کرنیکا کے گھاٹوں پر جلتی ہوئی چتائیں۔

ہندو معاشرے میں مرنے کے بعد کی رسمیں مختلف فرقوں اور علاقوں میں مختلف ہو سکتی ہیں۔ ویدک مذاہب میں مرنے کے بعد کی عام رسومات میں شامل ہیں:

شمشان

ترمیم

شمشان (سنسکرت: श्मशान) یا بنگالی میں ”شوشن“ وہ جگہ ہے جہاں چتا جلائی جاتی ہے۔ یہ عام طور پر کسی دریا کے کنارے یا اس کے قریب واقع ہوتی ہے۔ بعض افراد مقدس مقامات جیسے پوری، گیا، وارانسی، ہری دوار، پریاگ راج، سری رنگم، برہم پتر، رامیشورم وغیرہ پر راکھ کے وسرجن کے لیے جاتے ہیں۔[14]

جلانے کی رسم

ترمیم

آخری رسومات اکثر موت کے ایک دن کے اندر مکمل کی جاتی ہیں۔ فرقوں کے لحاظ سے رسومات مختلف ہو سکتی ہیں لیکن عام طور پر لاش کو دھویا جاتا ہے اگر آنجہانی مرد ہو یا بیوہ ہو تو سفید کپڑے میں لپیٹا جاتا ہے اور اگر عورت ہو جس کا شوہر زندہ ہو تو سرخ کپڑے میں۔[8] دونوں پاؤں کے انگوٹھے ایک ساتھ باندھے جاتے ہیں اور پیشانی پر تلک لگایا جاتا ہے۔[10] لاش کو رشتہ دار اور دوست شمشان تک لے جاتے ہیں اور چتا پر اس طرح رکھتے ہیں کہ پاؤں شمال کی جانب ہوں۔[8]

بڑا بیٹا یا کوئی مرد رشتہ دار یا پجاری جسے مُکھ اگنی داتا (मुखाग्नि दाता) کہتے ہیں، خود کو غسل دے کر رسم کی قیادت کرتا ہے۔[10][15] وہ چتا کے گرد گھومتا ہے، تعریفی کلمات یا کوئی بھجن پڑھتا ہے، میت کے منہ میں تل یا چاول رکھتا ہے، چتا اور میت پر گھی چھڑکتا ہے اور آنجہانی کی علامت کے طور پر یَم (موت کے دیوتا)، کال (وقت، کریا کرم اور انجام کے دیوتا) اور موت کی تین لکیریں کھینچتا ہے۔[10]

آگ لگانے سے قبل مٹی کا ایک گھڑا پانی سے بھر کر میت کے گرد گھمایا جاتا ہے اور پھر اسے کندھے کے پیچھے سے پھینک کر میت کے سر کے قریب توڑا جاتا ہے۔ جب چتا جلنے لگتی ہے تو پجاری اور قریبی رشتہ دار ایک یا کئی بار اس کے گرد گھومتے ہیں۔ ایک اہم رسم ”کپال کریا“ ہے جس میں چتا پر جلتی ہوئی لاش کی کھوپڑی کو بانس کی چھڑی سے پھاڑا جاتا ہے تاکہ آتما آزاد ہو سکے۔[16]

تمام افراد جو چتا پر موجود ہوں یا لاش یا دھوئیں کے رابطے میں آئیں رسم کے فوراً بعد غسل کرتے ہیں کیونکہ اس رسم کو ناپاک اور نجس سمجھا جاتا ہے۔[17] بعد ازاں جمع شدہ راکھ کو کسی قریبی دریا یا سمندر میں وِسرجت کیا جاتا ہے۔[15]

کچھ علاقوں میں آنجہانی کے بیٹے یا دیگر مرد رشتہ دار دسویں، گیارھویں یا بارھویں دن سر منڈوا لیتے ہیں اور ہمسایوں، دوستوں اور رشتہ داروں کو سادہ کھانے پر مدعو کرتے ہیں۔ بعض برادریوں میں اس دن غریبوں کو کھانا کھلانا بھی ایک روایت ہے۔[18]

بیٹی کی جانب سے والد کو مُکھ اگنی دینے کی ممانعت

ترمیم

ہندو مذہبی متون کے مطابق کسی لڑکی یا عورت کو شمشان میں داخل ہونے یا کسی میت کو مُکھ اگنی دینے کا اختیار حاصل نہیں۔ اس بنا پر نہ تو کوئی بیٹی اور نہ کوئی خاتون اپنے والد یا کسی اور کو اگنی دے سکتی ہے۔ مذہبی متون میں اس امر کی صراحت موجود ہے کہ آنجہانی خواہ والد ہو یا والدہ اس کی آخری رسومات بیٹا ہی ادا کرتا ہے۔ شاستروں میں اس امر کا بھی ذکر موجود ہے کہ بیٹا اپنے والدین کو ’پُو‘ نامی دوزخ سے نجات دلاتا ہے۔ روایات کے مطابق بیٹے کے ہاتھوں مُکھ اگنی دیے جانے کے بعد آنجہانی کو سورگ حاصل ہوتی ہے۔ اسی عقیدے کی بنیاد پر ہندو مت میں بیٹے کا ہونا متعدد سابقہ جنموں کی نیکیوں کا ثمر گردانا جاتا ہے۔ چونکہ بیٹا والدین کا جزو تصور کیا جاتا ہے اس لیے اسے لازم قرار دیا گیا ہے کہ وہ والدین کی وفات کے بعد اُن کی آخری رسومات ادا کرے۔ مذہبی متون میں اسے بیٹے پر ایک طرح کا اخلاقی و مذہبی قرض بھی قرار دیا گیا ہے۔[19]

جلانے کے جدید طریقے

ترمیم

ہندو آخری رسومات میں بانس کی لکڑی کی چتا اور برقی شمشان دونوں استعمال ہوتے ہیں۔[20] برقی شمشان کے لیے لاش کو بانس کے فریم پر رکھ کر الیکٹرک چیمبر میں داخل کیا جاتا ہے۔[21] جلانے کے بعد راکھ جمع کی جاتی ہے اور دریا یا سمندر میں وسرجت کی جاتی ہے۔

ہندو مت میں تدفین

ترمیم
 
بالی میں ہندو قبر

جلانے کے علاوہ ہندو مت کے کئی فرقے آنجہانی کو دفنانے کی روایت رکھتے ہیں۔ بعض فرقوں میں اہم گرو، سوامی یا سادھو دفنائے جاتے ہیں۔ تیاری کی رسمیں جلانے کی طرح ہوتی ہیں جیسے غسل، پیشانی پر وِبھوتی (مقدس راکھ) اور کُمکُم یا چندن پیسٹ لگانا وغیرہ۔ لیکن لاش کو چتا پر جلانے کی بجائے دفنایا جاتا ہے۔ بعض روایتوں میں لاش کو لیٹے ہوئے یا پدم آسن (کنول کی شکل کی نشست) میں دفنایا جاتا ہے۔ دفن کی جگہ کو شمشان کہا جاتا ہے اور یہ گاؤں یا شہر کے باہر واقع ہوتا ہے۔ بعض مالدار افراد اپنے کھیتوں میں دفن کرتے ہیں۔

سنتوں کی لاشیں عموماً بیٹھے ہوئے حالت میں دفن کی جاتی ہیں جہاں بعد میں ایک سمادھی تعمیر کی جاتی ہے جو عبادت کی جگہ بن جاتی ہے۔ ایّاوڑھی فرقے کے ماننے والے لاش کو شمال کی سمت میں پدم آسن میں بغیر تابوت کے دفناتے ہیں اور نامم (مقدس مٹی) سے ڈھانپتے ہیں، جسے دھرم یگ کے ظہور کے لیے ریاضت کی ایک شکل سمجھا جاتا ہے۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. Museum record 2007,3005.2 The British Museum, London
  2. ^ ا ب Antayesti Cologne Sanskrit Digital Lexicon, Germany
  3. anta, yASTi Monier Williams Sanskrit English Dictionary] Cologne Sanskrit Digital Lexicon, Germany
  4. antima, saMskara Monier Williams Sanskrit English Dictionary] Cologne Sanskrit Digital Lexicon, Germany
  5. Pandey, R.B. (1962, reprint 2003). The Hindu Sacraments (Saṁskāra) in S. Radhakrishnan (ed.) The Cultural Heritage of India, Vol.II, Kolkata:The Ramakrishna Mission Institute of Culture, ISBN 81-85843-03-1, p.411 to 413
  6. Victoria Williams Ph.D (21 Nov 2016). Celebrating Life Customs around the World: From Baby Showers to Funerals [3 volumes] (بزبان انگریزی). ABC-CLIO. p. 118. ISBN:9781440836596.
  7. Rajbali Pandey (2013), Hindu Saṁskāras: Socio-religious Study of the Hindu Sacraments, 2nd Edition, Motilal Banarsidass, ISBN 978-8120803961, pp. 234-245
  8. ^ ا ب پ J Fowler (1996), Hinduism: Beliefs and Practices, Sussex Academic Press, ISBN 978-1898723608, pp. 59-60
  9. ^ ا ب پ Terje Oestigaard, in The Oxford Handbook of the Archaeology of Death and Burial (Editors: Sarah Tarlow, Liv Nilsson Stut), Oxford University Press, ISBN , pp. 497-501
  10. ^ ا ب پ ت Carl Olson (2007), The Many Colors of Hinduism: A Thematic-historical Introduction, Rutgers University Press, ISBN 978-0813540689, pp. 99-100
  11. English Translation: Jamison and Brereton (Translator)Stephanie Jamison (2015)۔ The Rigveda –– Earliest Religious Poetry of India۔ Oxford University Press۔ ص 1395۔ ISBN:978-0190633394;
    Wendy Doniger (1981), The Rig Veda, Penguin Classics, ISBN 978-0140449891, see chapter on Death
  12. Sukta XVIII - Rigveda, English Translation: HH Wilson (Translator), pp. 46-49 with footnotes;
    Wendy Doniger (1981), The Rig Veda, Penguin Classics, ISBN 978-0140449891, see chapter on Death
  13. "Cremation of Gandhi's body". UPI (بزبان انگریزی).
  14. Christopher Justice (1997), Dying the Good Death: The Pilgrimage to Die in India's Holy City, SUNY Press, ISBN 978-0791432617, pp. 39-42
  15. ^ ا ب Carrie Mercier (1998), Hinduism for Today, Oxford University Press, ISBN 978-0199172542, p. 58.
  16. Rajbali Pandey (2013), Hindu Saṁskāras: Socio-religious Study of the Hindu Sacraments, 2nd Edition, Motilal Banarsidass, ISBN 978-8120803961, page 272
  17. George Castledine and Ann Close (2009), Oxford Handbook of Adult Nursing, Oxford University Press, ISBN 978-0199231355, pages 757-758
  18. Colin Parkes et al (2015), Death and Bereavement Across Cultures, Routledge, ISBN 978-0415522366, pp. 66-67.
  19. "ऐप खोलें पुत्र न होने पर कौन दे सकता है मृतक को मुखाग्नि? कैसे मिलती है मुक्ति? जानिए क्या कहते हैं शास्त्र" [بیٹا نہ ہونے پر کون دے سکتا ہے میت کو مُکھ اگنی؟ کیسے ملتی ہے مکتی؟ جانیے کیا کہتے ہیں شاستر]. News18 हिंदी (بزبان ہندی). Retrieved 2025-06-30.
  20. Hiro Badlani (2008), Hinduism: Path of the Ancient Wisdom, ISBN 978-0595701834, p. 292.
  21. Denise Cush, Catherine Robinson and Michael York (2007), Encyclopedia of Hinduism, Routledge, ISBN 978-0700712670, p. 38.