ضلع راجن پور کے شہر کوٹ مٹھن سے اگر چاچڑاں شریف ( خان پور) کی جانب جائیں تو بے نظیر برِج پر چڑھنے سے پہلے دائیں ہاتھ پر ایک کچا راستہ مڑتا ہے جہاں دریا پار کرنے کے لیے ایک عارضی پل قائم تھا۔ اِس پُل کے نزدیک حفاظتی بند کے ساتھ ایک حیران کُن منظر آپ کو اپنی جانب متوجہ کرے گا۔ اس کی مثال ایسے ہے جیسے یہاں ماضی میں کوئی بحری جنگ لڑی گئی ہو اور دشمن اپنے جہاز چھوڑ کہ بھاگ کھڑا ہو۔

یہاں آپ کو لہلہاتے اور سر سبز کھیتوں کے کنارے کیچڑ میں دھنسا ہوا ایک دیو ہیکل لوہے کا بحری جہاز نما ڈھانچہ نظر آئے گا، یہ انڈس کوئین ہے۔ سابقہ ریاست بہاولپور کا ستلج کوئین ۔ جس سے کچھ دور ایک سٹیمر اور دو کشتیاں بھی اپنی بے بسی پر نوحہ کناں ہیں۔

اس کی مکمل تاریخ کے لیے ہمیں ماضی کا چکر لگانا ہو گا۔ برِصغیر میں جب برٹش راج قائم ہوا تو سندھ سے پنجاب تک پُختہ سڑک اور ریلوے لائن نہ ہونے کی وجہ سے انگریزوں نے سامان واجناس کی نقل وحمل کے لیے دریائے سندھ میں دُخانی جہاز متعارف کروائے- دریائے سندھ کی روانی کا فائدہ اٹھا کر اِن جہازوں کے ذریعے صوبہ سندھ اور پنجاب کے بیچ تجارت کو فروغ دیا گیا۔  حیدرآباد میں گدو بندر بھی دراصل دریائے سندھ پر موجود ایک بندر گاہ تھی جہاں ''انڈس فلوٹیلا کمپنی'' کے دُخانی جہاز لنگر انداز ہوتے تھے- کراچی سے سامان حیدراباد کے گدو بندر بھجوایا جاتا جہاں سے اس سامان کو دخانی جہازوں میں لاد کر پنجاب اور لاہور تک پہنچایا جاتا- ریلوے لائن بِچھانے کے بعد پہلا ریلوے انجن بھی کراچی سے حیدراباد اور پھر وہاں سے انڈس فلوٹیلا شپ کے ذریعے لاہور پہنچایا گیا تھا۔ یہ دریائی سفر ایک سُست رفتار اور لمبا سفر تھا۔ کراچی بندرگاہ سے یہ سٹیم انجن پہلے دریائے سندھ کے مغرب میں واقع شہر کوٹری لے جایا گیا اور وہاں سے اسے انڈس فلوٹیلا کمپنی کی کشتی پر منتقل کر دیا گیا جس نے اسے لاہور تک پہنچانا تھا۔

دریائے سندھ اور دریائے چناب سے ہوتے ہوئے یہ کشتی 34 روز میں ملتان پہنچی۔ ملتان سے لاہور تک کا سفر کچھ جلدی طے ہو گیا اور بالآخر وہ دن آگیا جس کا لاہور کے باسیوں کو شِدت سے انتظار تھا۔ کشتی دریائے راوی کی لہروں پر سوار لاہور میں داخل ہوئی۔ لاہور میں دریائے راوی کے کنارے پر کشتی سے اس ریلوے انجن کو اتارا گیا اور اسے شہر (چوبرجی کے مقام پر) میں لایا گیا جہاں معززینِ شہر اور عوام کی ایک بڑی تعداد جمع تھی۔ لاہور میں یہ انجن بیل گاڑیوں کی مدد سے گھسیٹ کر ریلوے اسٹیشن تک پہنچایا گیا تھا۔

لگ بھگ اسی دور میں دریائے سندھ کے بڑے معاون دریا ستلُج میں بھی ایک عظیم الجُثہ بحری جہاز کا راج تھا ۔ یہ ریاست بہاولپور کے نواب کا ستلج کوئین تھا۔ ستلج کوئین نواب آف بہاولپور نواب صادق خان عباسی پنجم کی ملکیت تھا جسے لگ بھگ 1867 میں بنایا گیا تھا ۔

قیامِ پاکستان کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان 1960ء میں سندھ طاس معاہدے پر دستخط کیے گئے جس کے تحت تین دریا ستلج ، بیاس اور راوی بھارت کے حوالے کر دیے گئے تو ستلج کی گود سونی ہو گئی ۔ ادھر ریاستِ بہاولپور کے پاکستان میں ضم ہونے کے بعد نواب صادق خان عباسی نے پانی میں چلنے والا یہ جہاز ’’ستلج کوئین‘‘ حکومت پاکستان کو دے دیا۔ ستلج کوئین کو حکومت پاکستان نے ''غازی گھاٹ'' پر منتقل کیا اور اسے ڈیرہ غازی خان اور مُظفر گڑھ کے بیچ دریائے سندھ میں چلانا شروع کر دیا۔ سِندھو ندی میں  آنے کے بعد یہ ستلج سے ''انڈس کوئین'' ہو گیا۔ غازی گھاٹ کے مقام پر پانی کے تیز بہاؤ کے پیشِ نظر انڈس کوئین کو 1996ء میں کوٹ مٹھن منتقل کر دیا گیا جہاں یہ مِٹھن کوٹ سے چاچڑاں کے درمیان پوری شان و شوکت سے چلتا رہا حتیٰ کہ 1996ء میں ہائی وے ڈیپارٹمنٹ حکومت پنجاب کی عدم توجہی کا شکار ہو کر چلنے کے قابل نہ رہا اور تب سے لے کر اب تک دریائے سندھ کے کناروں سے بھی دور میدانوں میں پڑا ہے۔


مقامی افراد کی طرف سے فراہم کردہ معلومات کے مطابق  یہ وہ جہاز ہے جِسے نواب آف بہاولپور، نواب صُبحِ صادق نے حضرت خواجہ غلام فریدؒ کو تحفہ میں دیا تھا۔ فرید کی نگری (کوٹ مٹھن) اور چاچڑاں شریف کے درمیان ٹھاٹھیں مارتا دریائے سندھ بہتا ہے جس کی وجہ سے خواجہ صاحبؒ سے ملاقات کرنے والے مریدین کو دشواری پیدا ہوتی تھی اور خواجہ صاحبؒ کو بھی چِلہ کشی کے لیے روہی (چولستان) جانا پڑتا تھا اس لیے نواب آف بہاولپور نے یہ بحری جہاز خواجہ صاحبؒ کو تحفتاً دے دیا تھا جو کافی عرصہ استعمال میں رہا۔ اس جہاز نے اپنا آخری سفر 1996 میں کیا۔


اس جہاز کے تین حصے تھے۔ نیچے والے حصے میں انجن، جنریٹر اور اوپر ملازمین کے کمرے تھے۔ درمیانی حصہ مسافروں کے بیٹھنے کے لیے تھا، ایک حصہ عورتوں اور ایک مردوں کے لیے مختص تھا۔ درمیانی حصہ کے اوپر لوہے کی چادر کا شیڈ بنا ہوا ہے اور شیڈ کے اوپر سب سے اوپر والے حصہ میں مسافروں کے لیے ایک چھوٹی سی مسجد اور سامنے والے حصہ میں بالکل آگے کپتان کا کمرہ بنایا گیا تھا جس میں جہاز کو چلانے والی چرخی لگی ہوئی تھی جو جہاز کی سمت کا تعین کرنے میں استعمال ہوتی تھی ۔ تین منزلہ اس جہاز میں ایک ریستوران بھی تھا جس سے بیک وقت 400 مسافروں کو کھانا پیش کیا جاتا تھا۔ قریباً پینتالیس سال پہلے اس جہاز میں آگ لگنے کے باعث یہ سہولت ختم کر دی گئی۔

2010 کے سیلاب میں پانی اس جہاز کے اوپر سے گذر گیا اور یہ جہاز کیچڑ سے لت پت ہو گیا اب بھی اس کا انجن کیچڑ سے ڈھکا ہوا ہے۔ خانوادہِ فریدؒ سے تعلق رکھنے والے مذہبی اور سیاسی رہنما خواجہ عامر فرید کہتے ہیں کہ ہم نے ریاست بہاولپور کی یادگاروں، بہاولپور ریاست کے عوام، ریاست کے آثار قدیمہ، ریاست کی تاریخی عمارتوں اور اداروں کے ساتھ جو امتیازی سلوک روا رکھا ہے، اس کی ایک مِثال انڈس کوئین ہے جسے مکمل بے پروائی کے ساتھ نظر انداز کر دیا گیا ہے۔


بے نظیر برج کے بعد اب مسافروں کی منتقلی کے لیے اس جہاز کی ضرورت تو نہیں رہی لیکن دوبارہ مرمت کر کہ اِسکو سیاحوں کی سیر کی غرض سے سِندھو ندی میں چلایا جا سکتا ہے۔ یا پھر دریا کنارے لنگر انداز کر کہ تھوڑا سا سرمایہ خرچ کر کہ اسے ایک خوبصورت ریسٹورنٹ میں بھی تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ سوچیں کتنا خوبصورت منظر ہوگا جب رات کو دریائے سندھ کے پانیوں میں روشیوں میں نہائے انڈس کوئین ریسٹورنٹ کا عکس پڑے گا۔ اور میں وثوق سے کہتا ہوں کہ یہ جہاز اگر لاہور میں ہوتا تو آج جگمگ کرتا پانیوں میں چلتا ایک خوبصورت بوٹنگ ریسٹورنٹ ہوتا۔  

ضرورت اس امر کی ہے کہ اس قیمتی تاریخی ورثے کو برباد ہونے سے بچایا جائے۔اسے بحال کیا جائے اور سیاحت کے فروغ کے لیے استعمال کیا جائے۔ ورنہ آج سے چند سال بعد اس کا ڈھانچہ بھی ناکارہ قرار دے کر سکریپ کے طور پر بیچ دیا جائے گا۔

انڈس کوئین کو اگر زبان مل جائے تو یقیناً وہ ان الفاظ میں ہم سے شکوہ کرتا ؛


بے بسی ہے، اداسی ہے اور درد ہے

سب ہے میرے پاس بس ایک تُم ہی نہیں ہو


انڈس کوئین سندھ کی رانی