ضلع بدین کے آثار قدیمہ

بظاہر تو لگتا یہی ہے کہ جب جام انڑ نے ڈیرے ڈالے ہوں گے تو یہ قلعہ پہلے سے ہی موجود رہا ہو گا۔ 20 ایکڑ زمین کے رقبے اور 28 برجوں پر مشتمل یہ قلعہ ماضی میں یقیناً شاہکار رہا ہو گا۔ انگریز محقق راورٹی کی کتاب ’سندھ جو مہران‘ کے مطابق سمہ خاندان کے لوگ نقل مکانی کر کے لاڑ کے سموں کے ساتھ آ کر ملے تھے۔ سومرو حکومت کا تختہ پلٹنے سے پہلے انھوں نے اپنا ایک قلعہ بھی تعمیر کر لیا تھا۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس قلعے کا نام ٹھاکر آباد تھا، کیونکہ وہ ایک ٹھاکر سردار کے رہنے کی جگہ تھی۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اسی زمانے میں ہمیر سومرو نے ظلم کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ یوں کچھ کے سموں نے انڑ سمہ کو اپنا رہنما چنا، جو دانائی اور جرات میں سب سے آگے تھا۔ تو انڑ نے ایک حملہ کر کے ہمیر سومرو کا کام تمام کر دیا۔

یہ قلعہ محض ایک دفاعی قلعہ تھا۔ اس کی دیواروں کے اندر کچھ کوٹھیوں کے علاوہ بڑے پیمانے پر کسی رہائشی آبادی کے آثار نہیں ملتے

تاریخ دان اور محقق اشتیاق احمد انصاری اپنی کتاب ’سندھ جا کوٹ اور قلعہ‘ میں لکھتے ہیں: ’اس قلعے کی تعمیر میں جومیٹری اور انجینیئرنگ کا مکمل طور پر خیال رکھا گیا ہے۔‘

اس قلعے کی شمالی دیوار سے اس وقت بہتے دریا کی لہریں ٹکراتی تھیں باقی تینوں اطراف سے 100 فٹ تک چوڑی کھائی ہوا کرتی تھی۔ صدیوں سے وقت کا مقابلہ کرتی قلعے کی دیواریں اب اینٹوں کے ملبے میں بدل گئی ہیں لیکن ان کی اونچائی کہیں کہیں اب بھی 20 فٹ تک قائم ہے

قلعے کے اندر شمال مشرقی کونے پر ایک کنویں کے نشان اب بھی باقی ہیں، جو ماضی میں قلعہ کے اندر رہنے والوں کے لیے پانی کا ذریعہ رہا ہو گا۔

قلعے کے اندر سے لوگوں کو پکائی ہوئی مٹی کے کئی گولے ملے تھے جن کا وزن دو کلو تک کا تھا۔ تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ یہ ممکنہ طور پر منجنیقوں کے گولے ہیں جو قلعوں کی دیواریں توڑنے کے کام آتے تھے۔