انیلہ عزت بیگ پاکستان کی ایک خاتون پیرا ایتھلیٹ کھلاڑی ہیں جنھوں نے 2022ء کی کامن ویلتھ گیمز کے پیرا ایتھلیٹکس مقابلوں کے ڈسکس تھرو ایونٹ میں حصہ لیا اگرچہ وہ اس ایونٹ میں ہار گئیں لیکن زندگی کے مسائل کا مقابلہ بلند حوصلے کے ساتھ کرتے ہوئے ہار ماننے کے لیے تیار نہیں۔انیلہ عزت بیگ ان 25 خواتین کھلاڑیوں میں شامل ہیں جنھوں نے برمنگھم میں ہونے والے کامن ویلتھ گیمز 2022ء میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ان میں سے کئی کھلاڑی ایسی ہیں جو ملک میں کھیلوں کی سہولیات سے قطعاً مطمئن نہیں ہیں اور ان کا خیال ہے کہ اگر انھیں ٹریننگ اور کوچنگ کی بنیادی سہولتیں میسر آ جائیں تو وہ اپنی کارکردگی میں غیر معمولی بہتری لا سکتی ہیں[1]

فائل:Anila izzat baig.JPG
انیلہ عزت بیگ فیصل آباد کی ایک مشہور ٹیکسٹائل ملز میں صرف 17 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ پر کام کرتی ہیں

کسی بھی کھلاڑی کے لیے اس سے زیادہ خوشی کی بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ وہ بین الاقوامی سطح پر اپنے ملک کی نمائندگی کرے لیکن پاکستان کی خاتون پیرا ایتھلیٹ انیلہ عزت بیگ ایک مشہور ٹیکسٹائل مل میں صرف سترہ ہزار روپے پر ملازمت لرتی ہیں کے لیے وہ لمحہ انتہائی تکلیف دہ تھا جب انھوں نے فیکٹری مالکان سے کہا کہ انھیں کامن ویلتھ گیمز میں حصہ لینے کے لیے تیاری کرنی ہے تو انھیں جواب ملا کہ آپ کو ان دو ماہ چھٹیوں کی تنخواہ نہیں ملے گی۔ ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ مجھے اس بات کا افسوس ہے کہ فیکٹری مالکان کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ میں انٹرنیشنل لیول پر پاکستان کی نمائندگی کرتی ہوں لیکن اس کے باوجود وہ مجھے سپورٹ نہیں کرتے۔

آنیلہ بتا ررہی تھیں کہ میں فیکٹری میں کام کرتے ہوئے اپنی ٹریننگ بھی نہیں کر سکتی۔ میں رات کو گھر واپس آتی ہوں اس کے بعد کوشش کرتی ہوں کہ کسی نہ کسی طرح اپنی ٹریننگ کر سکوں لیکن یہ بہت مشکل صورت حال ہے۔ انیلہ عزت بیگ کہتی ہیں کہ فیصل آباد میں میرے پاس ٹریننگ کی کوئی جگہ بھی نہیں ہے اور مجھے ڈسکس تھرو کے لیے ڈسکس بھی کسی سے لینا پڑتا ہے۔ اگر مجھے ٹریننگ کی سہولتیں مل جاتیں تو میں کامن ویلتھ گیمز میں ضرور تمغا جیت سکتی تھی۔انیلہ عزت بیگ کا کہنا ہے کہ 'میں حکومت سے صرف اتنا چاہتی ہوں کہ مجھے ڈِسکس مل جائیں تاکہ میں ان سے اپنی ٹریننگ کر سکوں اور اگر واپڈا میں مجھے ملازمت نہیں مل سکتی تو کم از کم اتنی ہی مہربانی کر دی جائے کہ میری ٹریننگ کے لیے مجھے واپڈا کا کوئی اچھا کوچ فراہم کر دیں۔

انیلہ عزت بیگ جذباتی انداز میں کہتی ہیں کہ 'میں اس کھیل کو چھوڑنا نہیں چاہتی۔ میں نے کبھی بھی یہ نہیں سوچا کہ پولیو کی وجہ سے میری بائیں ٹانگ متاثر ہے۔ میرے اندر جذبہ اور جنون ہے اور میں پاکستان کے لیے کچھ کر دکھانا چاہتی ہوں۔ 'پاکستان پیرالمپک کمیٹی نے میرے کریئر میں بہت مدد کی ہے لیکن حکومت کی طرف سے بالکل خاموشی ہے۔ وہ ہم ڈس ایبلڈ کھلاڑیوں کی طرف بھی توجہ دے۔ ہم بھی تو آخر پاکستان کا نام روشن کر رہے ہیں۔'

پاکستان کی قومی پیرالمپکس کمیٹی کی میڈیا ڈائریکٹر ہما بیگ کا کہنا ہے کہ 'پیرا ایتھلیٹس بھی اتنے ہی اہم ہیں جتنے دیگر عام ایتھلیٹس۔ نیشنل پیرالمپکس کمیٹی نے پرائیوٹ اداروں سے سپانسرشپ لے کر اپنے کھلاڑیوں کی بین الاقوامی مقابلوں میں شرکت کو ممکن بنایا ہے اور ان ایتھلیٹس نے شاندار کارکردگی بھی دکھائی ہے لیکن سب سے بڑا مسئلہ فنڈنگ کا ہے۔'

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم