اوستا
اوستا زرتشتیوں کی مقدس کتاب ہے۔ اس کی زبان قدیم پہلوی ایرانی سے ملتی جلتی ہے۔ کہتے ہیں کہ اس کے 21 پارے تھے جو بارہ ہزار چمڑوں پر سنہرے خطوں میں لکھے ہوئے تھے۔ ہنحامنشی فرمان راؤں کے زوال کے بعد ضائع ہو گئی۔ اس وقت فقط ایک مکمل پارہ، و ندیداد موجود ہے اور باقی چند اجزا ہیں۔
یہ کتاب بہت قدیم ہے۔ اسے کبھی ژند اوستا یا زند اوستا بھی کہا جاتا ہے۔
اوستا کے چار حصے ہیں
- یسنا جس میں 72 باب ہیں۔ گتھا یعنی مقدس بھجن بھی انہی میں شامل ہیں۔#ویسپ رید یعنی حمدیں
- وندیداد جس میں طہارت، ریاضت اور عبادت کے قاعدے قانون درج ہیں۔
- یشت یعنی فرشتوں کی مدعیات، ان کے بارے میں عام عقیدہ یہی ہے کہ یہ زرتشت کا کلام ہے۔ سکندر اعظم نے 331 ق م ایران فتح کیا تو اوستا کا زیادہ حصہ ضائع ہو گیا۔ ساسانیوں کے عہد میں پراگندہ اوستا کو جمع کیا گیا۔ تو 348 فصلیں مل سکیں۔ جنھیں 21 کتابوں میں منقسم کیا گیا۔ عربوں اور مغلوں کے حملوں سے اس کا اور حصہ بھی ضائع ہوا۔ اب موجودہ اوستا صرف 83000 الفاظ ہیں۔[1]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ اردو انسائیکلوپیڈیا/150
ویکی ذخائر پر اوستا سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |