اِکراہ شرعی:کسی کے ساتھ ناحق ایسا فعل کرناکہ وہ شخص ایسا کام کرے جس کو وہ کرنا نہیں چاہتا اور کبھی مکرِہ (مجبور کرنے والے)کی جانب سے کوئی ایسا فعل نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے مکرَہ (مجبور کیا ہوا)اپنی مرضی کے خلاف کرے مگر مکرَہ جانتا ہے کہ یہ شخص ظالم ہے اگر میں نے نہ کیاتو جو کچھ کہتا ہے کرگزرے گا اس صورت میں بھی اکراہ ہے اسے لوگ جبر کرنا بھی کہتے ہیں۔ اس کی دو قسمیں ہیں

اِکراہ تام

ترمیم

مار ڈالنے یا عضو کاٹنے یا ضرب شدید(جس سے جان یا عضو کے تلف ہونے کا اندیشہ ہو) کی دھمکی دی جائے مثلاً کوئی کسی سے کہتا ہے کہ یہ کام کر، ورنہ تجھے مارتے مارتے بیکار کر دوں گا۔ اس کواکراہ ملجی بھی کہتے ہیں۔

اِکراہ ناقِص

ترمیم

جس میں اس(مار ڈالنے یا عضو کاٹنے یا ضرب شدید)سے کم کی دھمکی ہو مثلاًپانچ جوتے ماروں گا یا پانچ کوڑے ماروں گا یا مکان میں بند کر دوں گا یا ہاتھ پاؤں باندھ کر ڈال دوں گااس کواکراہ غیر ملجی بھی کہتے ہیں ۔[1]

حوالہ جات

ترمیم
  1. بہارشریعت،ج3،حصہ15،ص188