ایجاب و قبول
ایجاب وقبول: نکاح کے وقت دولہا دولہن کا ایک دوسرے کو قبول کرنا ایجاب و قبول کہلاتا ہے
نکاح کی شرائط
ترمیمنکاح کی دو بنیادی شرطیں(رکن) ہیں :
- (1) شرعی طور پر دو گواہ ہوں دوگواہوں کے سامنے اگر ایجاب و قبول نہ ہو نکاح باطل و کالعدم ہے
- (2) ایجاب و قبول،نکاح(عقد) کرنے والوں میں سے پہلے کاکلام ایجاب اوردوسرے کا قبول کہلاتاہے۔[1]
صیغہ ماضی کا ہونا
ترمیمایجاب و قبول اور ان کے صحیح ہونے کی شرائط نکاح ایجاب و قبول کے ذریعہ منعقد ہوتا ہے اور ایجاب و قبول دونوں ماضی کے لفظ کے ساتھ ہونے چاہئیں (یعنی ایسا لفظ استعمال کیا جائے جس سے یہ بات سمجھی جائے کہ نکاح ہو چکا ہے)
ایجاب و قبول کا سننا
ترمیمایجاب و قبول کے وقت عاقدین ( دولہا دولہن) میں سے ہر ایک کے لیے دوسرے کا کلام سننا ضروری ہے خواہ وہ بالاصالۃ ( یعنی خود) سنیں خواہ بالوکالۃ ( یعنی ان کے وکیل سنیں) اور خواہ بالولایۃ سنیں (یعنی ان کا ولی سنے) ایجاب و قبول کے وقت دو گواہوں کی موجودگی نکاح صحیح ہونے کی شرط ہے دونوں ایجاب و قبول کے الفاظ کو ایک ساتھ مجلس میں سنیں اور سن کر یہ سمجھ لیں کہ نکاح ہو رہا ہے گو ان الفاظ کے معنی نہ سمجھیں۔
مذاق میں ایجاب و قبول
ترمیمابوہریرہ راوی ہیں کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تین چیزیں ایسی ہیں جن کا قصد کرنا بھی قصد ہے اور ہنسی مذاق میں منہ سے نکالنا بھی قصد ہے نکاح طلاق رجعت [2]
- حدیث کا مطلب یہ ہے کہ تین چیزیں ایسی ہیں جو زبان سے ادا ہوتے ہی وقوع پزیر ہوجاتی ہیں خواہ ان کے معنی مراد ہوں یا مراد نہ ہوں۔ چنانچہ اگر دو اجنبی مرد و عورت کے درمیان ہنسی ہنسی میں دو گواہوں کے سامنے ایجاب و قبول ہو جائے تو بھی نکاح ہوجاتا ہے اور وہ دونوں میاں بیوی بن جاتے ہیں یا اگر کوئی ہنسی مذاق میں طلاق دیدے تو بھی طلاق پڑ جائے گی۔ طلاق کے بعد رجوع بھی ہنسی میں ہو جاتا ہے