ایمن عارف ایک ایسی باہمت خاتون ہیں جنھوں نے پیدائشی طور پر کلف فٹ نامی بیماری کے باوجود عملی زندگی میں اپنے عزم کو بروئے کار لا کر کامیابیاں حاصل کیں۔ان کا تعلق پنجاب کے شہر جہلم سے ہے لیکن انھوں نے اپنی تعلیم کے لیے راولپنڈی کا رخ کیا اور ابلاغ عامہ میں ماسٹر ڈگری حاصل کرنے کے بعد نجی ٹی وی چینل میں بطور نیوز کاسٹر نوکری حاصل کی۔ کچھ عرصہ بعد انھوں نے فیلڈ رپورٹنگ شروع کر دی۔ اس وقت تک انھیں اس بیماری کا شکار ہونے کے باوجود احساس نہیں ہوا تھا کیونکہ ایمن کے مطابق انھیں کبھی بھی چلنے میں تکلیف نہیں ہوئی تھی۔ اس کے بعد انھیں اقوام متحدہ کے عالمی خوراک پروگرام میں کام کرنے کا موقع ملا۔ ایمن کے مطابق جب انھیں یہ نوکری ملی تو آفس پہنچنے کے لیے انھیں کئی سیڑھیاں چڑھنا پڑتی تھیں جس سے ان کے پائوں میں تکلیف شروع ہو گئی کیونکہ آفس میں لفٹ نہ ہونے کی وجہ سے مجھے چوتھے فلور پر پہنچنے کے لیے سیڑھیاں چڑھنی اترنی پڑتی تھیں جس سے مجھے پائوں میں ہلکا سے درد محسوس ہونے لگا۔ میں نے ڈاکڑ کے پاس جانے کا سوچا۔ 2021ء میں ایمن کی ایک بڑی سرجری ہوئی لیکن یہ ایمن کی پہلی نہیں بلکہ چھٹی سرجری تھی۔[1]

فائل:Aiman Arif-3.JPG
ایمن نے ابلاغ عامہ میں ماسٹر ڈگری حاصل کرنے کے بعد نجی ٹی وی چینل میں بطور نیوز کاسٹر نوکری حاصل کی

کلب فٹ کیا ہے؟

ترمیم
فائل:Aiman Arif-2.JPG
کلب فٹ میں انسان کا ایک پائوں پیدائشی طور پر مڑا ہوا ہوتا ہے اور وہ ٹھیک سے چل نہیں سکتا

کلب فٹ ایک ایسا عارضہ ہے جس میں انسان کا ایک پائوں پیدائشی طور پر مڑا ہوا ہوتا ہے اور وہ ٹھیک سے چل نہیں سکتا۔ ڈاکٹرز کے مطابق بروقت سرجری سے علاج کی صورت میں پائوں ٹھیک ہو سکتا ہے تاہم اگر بروقت علاج نہ ہو، تو چلنے میں دشواری کے ساتھ ساتھ دونوں پائوں میں فرق آ جاتا ہے یعنی متاثرہ پائوں میں پہنا جانے والا جوتا نارمل پائوں کے مقابلے میں چھوٹا ہو گا۔[2] ایمن کے والد نے ان کے بچپن میں ان کی دو سرجریاں کروائی تھیں جس کی بعد ان کا ٹیڑھا پائوں تو سیدھا ہو گیا مگر دونوں پائوں میں دو سینٹی میٹر کا فرق آ گیا۔ ایمن بتا رہی تھیں کہ سرجری کے بعد میرے پائوں پر پلستر کر دیا گیا جو ہر چھ ماہ بعد تبدیل ہوتا تھا۔ دوسرا پائوں تو معمول کے مطابق بڑھ رہا تھا، مگر جس پائوں پر پلستر تھا[3] اس کے بڑھنے کی رفتار رک گئی۔اکثر بچوں کو سرجری کے بعد ڈاکڑ ایک سپیشل جوتا تجویز کرتے ہیں جس سے دونوں پائوں کے توازن کو برقرار رکھنے میں مدد ملتی ہے۔ایمن کے لیے بھی ڈاکڑ نے یہی ایسا ہی جوتا تجویز کیا تھا مگر وہ اکثر یہ جوتا نہیں پہنتی تھیں۔ ایمن کے مطابق چھوٹی عمر کی وجہ سے مجھے جوتا پہننے کی عادت نہیں پڑی جس کی وجہ سے میں ٹھیک طرح نہیں چل سکتی تھی اور ایسے چلنے کی وجہ سے میرے دونوں پائوں کا فرق جو پہلے دو سینٹی میٹر تھا بڑھ کر آٹھ سینٹی میٹر تک پہنچ گیا۔ میری محتلف سرجریاں ہوتی رہیں اور 2021ء سے پہلے تک میری پانچ سرجریاں ہو چکی تھیں اور میں سوچتی تھی کہ مجھے اللہ نے جیسے پیدا کیا ہے، میں ویسی ہی قبر میں جائوں گی، مجھے کبھی محسوس نہیں ہوا کہ مجھے اب اس عمر میں اس ٹانگ کو ٹھیک کروانے کی ضرورت ہے مگر نوکریاں تبدیل کرتے کرتے میرے پائوں میں تکلیف شروع ہو گئی جس نے مجھے مجبور کیا کہ میں اب تک کی اپنی سب سے مشکل اور بڑی سرجری کروائوں[4]

فائل:Aiman Arif-1.JPG
تین ماہ ٹانگ کے ساتھ فِکسیٹر لگے رہنے کی وجہ سے ان کے گھٹنے میں لچک ختم ہو گئی تھی

اس سرجری کے بعد ان کے پائوں کے باہر تین ماہ کے لیے ایکسٹرنل فکسیٹر لگا دیا گیا۔ یہ ایک طرح کی مشین ہے جس سے مصنوعی طور پر ٹانگ کی لمبائی کو بڑھایا جاتا ہے مگر ایمن کے مطابق اس مشین اور اس کے چلانے کا عمل بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔ ہر روز اس مشین کو دن میں تین بار چلایا جاتا تھا، تین ماہ میں سینٹی میٹر کا فرق اس مشین کے ذریعے حاصل کر لیا گیا۔ ایمن کی یہ آخری سرجری نہیں تھی۔ تین ماہ ٹانگ کے ساتھ فِکسیٹر لگے رہنے کی وجہ سے ان کے گھٹنے میں لچک ختم ہو گئی تھی جس کی وجہ سے ان کے گھٹنے کی بھی سرجری کی گئی اور اس کو پیچھے کی طرف باندھ دیا گیا۔ مجھے آج بھی یاد ہے جب میں ہوش میں آئی تو اتنی تکلیف میں تھی کہ میرے پاس بتانے کے لیے الفاظ نہیں۔ اس کے بعد ایمن کا ایک نیا سفر شروع ہوا جس میں انھوں نے دوبارہ بچوں کی طرح چلنا سیکھا۔ وہ جِم میں مختلف ورزشوں کے ذریعے جسم کی قوت واپس حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ جہلم سے راولپنڈی کے ہوسٹل تک کا سفر ایمن نے کئی مشکلات کے ساتھ گزارا مگر انھوں نے کبھی اپنے والدین یا بہن بھائیوں سے مالی مدد نہیں لی۔ ایمن نے مختلف جہگوں پر نوکری کر کے نہ صرف اپنے لیے گاڑی خریدی بلکہ اتنی بڑی سرجری بھی خود کروائی۔ ایمن کے مطابق اتنا بڑا مالی قدم اٹھانے سے پہلے میں نے والدین سے مشورہ کیا۔ میں مالی طور پر خود مختار تھی۔ میرے پاس پیسے تھے، میں نے آج تک کسی سے مدد نہیں لی۔ ایسا نہیں کہ میرے والدین میری مدد نہیں کر سکتے تھے پر مجھے ضرورت نہیں پڑی۔ میں نے سارا علاج خود کروایا۔

ایمن نے بتایا کہ اس سرجری کے بعد ان کو لگتا ہے کہ ان کو ایک نئی زندگی ملی ہے۔ انھوں نے دوبارہ چلنا سیکھا ہے۔ ایمن کے مطابق ان کو اب یاد ہی نہیں کہ وہ پہلے کیسے چلتی تھیں۔ انھیں اب لوگوں کے رویے بلکہ عام سے لگتے ہیں کہ جیسے انھیں کبھی کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ معاشرے کے رویوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ لوگوں نے ان کے والدین کو منع کیا کہ ان پر پیسے نہ لگائیں۔ لوگوں نے میرے والدین کو کہا کہ اس کو تعلیم دے کر کیا ملے گا، کون سا اس نے کل کو کوئی نوکری کرنی ہے، اس کو شہر سے دور اکیلے بھیج رہے ہو۔ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ ایمن کے والدین نے لوگوں کی منفی باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے نہ صرف انھیں تعلیم کے لیے شہر سے دور بھیجا بلکہ ان کو حوصلہ اور ہمت کے ساتھ آگے بڑھنے کی ترغیب دی۔ ایمن کہتی ہیں کہ اگر کسی میں کوئی کمی ہے تو اسے یہ محسوس نہ ہونے دیں بلکہ اسے ہمت دیں۔

حوالہ جات

ترمیم