بئر ذروان
بئر ذروان مدینہ منورہ کے کنووں سے بنو زرریق میں ایک کنواں تھا
نام میں اختلاف
ترمیماس کے نام میں اختلاف ہے بعض نے بئر ذی اروان بعض نے ذی اوان لکھا ہے ویسے ذی اوان اس جگہ کا نام ہے جہاں مسجد ضرار تعمیر کی گئی تھی دراصل روایت ذروان اور ذی اروان کو جمع کرنے کی صورت یوں بنتی ہے کہ اصل میں یہ لفظ ذی اروان تھا پھر کثرت استعمال سے ہمزہ میں تسہیل کی گئی تو یہ ذروان بن گیا۔اس کی تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ ابو عبیدہ بکری نے بئر کا نام اروان درست قرار دیا ہے اور جس نے ذروان کہا ہے اس نے غلط کہا ہے حالانکہ یہ ظاہر ہے کہ یہ غلطی نہیں ایک روایت میں یہ لفظ بئر اروان بھی آیا ہے لفظ ذی شامل نہیں۔ جس نے ذروان کیا ہے اس نے اصل لفظ میں تبدیلی کی ہے
بئر ذروان کا ذکر
ترمیمصحیحین وغیرہ میں اس کنوئیں سے متعلق حدیث لبید بن اعصم کے جادو کے بیان میں ہے ایک روایت میں ہے نام اعصم سحولی لکھا ملتا ہے ایک اور روایت میں ہے کہ یہ شخص بنو زریق میں سے تھا یہودیوں کا حلیف تھا اور منافق تھا۔ اس نے آٹھویں سال میں رسول اللہ ﷺ پرکنگھی میں جادو کر کے اسے اس کنوئیں میں ایک پتھر کے نیچے رکھ دیا جادو نے آپ پر اثر کر دیا پھر آپ کو یہ سب کچھ خواب میں دکھا دیا گیا اور آخر کا اسے کنوئیں سے نکال کر کھول دیا گیا۔ حارث بن قیس نے عرض کی یا رسول اللہ! کیا ہم کنوئیں کو ڈھا نہ دیں؟ آپ نے منہ پھیر لیا چنانچہ حارث اور ان کے ساتھیوں نے اسے گرا دیا حالانکہ اس کنوئیں سے میٹھا پانی پیا جاتا تھا۔ حارث کہتے ہیں کہ انھوں نے ایک اور کنواں خریدا حضور ﷺ بھی ان کی مدد فرماتے رہے اور آخر انھوں نے پانی نکال لیا وہ بعد میں گرا دیا گیا تھا۔ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے حکم سے وہ تعویذ قیس بن محسن نے نکالا تھا۔[1]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ وفاء الوفا باخبار دار المصطفے، جلد 4،صفحہ 308،علامہ نور الدین علی بن احمد السمہودی، ادارہ پیغام القرآن اردو بازار لاہور