بابا عالم سیاہ پوش

شاعر، کہانی اور مکالمہ نگار تھے،

بابا عالم سیاہ پوش 1916ء میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصلی نام محمد حسین تھا۔ انھوں نے بے شمار پنجابی فلموں کے گیت اور مکالمے لکھّے اور زبردست شہرت حاصل کی۔ایک زمانے میں فلمی صنعت میں ان کے نام کا ڈنکا بجتا تھا۔ پاکستان کی پنجابی فلموںمیں جن گیت نگاروں نے اپنے فن کا جادو جگایا، ان میں حزیں قادری،وارث لدھیانوی ،سلیم کاشر،اور احمد راہی کے نام قابل ذکر ہیں۔ ان سب گیت نگاروں نے لازوال نغمات تخلیق کیے اور وہ اپنے اِن گیتوں کی بدولت آج بھی زندہ ہیں۔ نغمہ نگاری کے حوالے سے اِن سب شعرا کا اپنا اپنا اسلوب تھا۔بابا عالم سیاہ پوش کا انداز سب سے جُدا تھا۔ انھوں نے جن فلموں کے لیے گیت لکھے اُن میں زیادہ تر سُپر ہٹ ثابت ہوئیں۔ان فلموں میں ’’پھیرے ،لارے، چُوڑیاں، دلدار،لارا لپّا، پتن،ناجی، پانی،تیس مار خان،جانی دشمن،بدلہ،میرا ویر،اور زُلفاں‘‘ کے علاوہ کئی اور فلمیں شامل ہیں۔ ان کے گیتوں کو ملکّہ ترنم نورجہاں،مالا،نسیم بیگم،نذیر بیگم،زبیدہ خانم اور مسعود رانا جیسے گلو کاروں نے گایا۔ذیل میں ہم اپنے قارئین کو بابا جی کے چند مقبول ترین گیتوں کے بارے میں کچھ بتائیں گے۔ 1۔نمبواں د اجوڑا اساں باگے وچوں توڑیا 2۔ہو میری جھانجھر چھن چھن چھنکے 3۔چِٹی گھوڑی تے کاٹھی تِلّے دارنی سیّو 4۔دھرتی دا میں سینہ پھولاں کدی نہ ڈولاں بیلیا 5۔میلہ میلیاں دا پیسے دھیلیاں دا 6۔جیڑے توڑ دے نیں دِل برباد ہون گے 7۔میرے سجرے پُھلاں دے گجرے 8۔میں چھج پتاسے ونڈا اج قیدی کر لیا ماہی نُوں 9۔جیدا دِل ٹٹ جائے جیدی گل مُک جائے 10۔چھنا چھنک دا موتی میرے نک دا بابا عالم سیاہ پوش محض پنجابی فلموں کے گیت نگار ہی نہیں بلکہ انھوں نے بڑی معیاری پنجابی نظمیں بھی تخلیق کیں۔یہ نظمیں اس وقت کے اخبارات میں شائع ہوئیں۔اُن کی مشہور نظموں میں ’’کچاّ گھڑا، کشمیر، آٹا، ہاڑا،ساڈا ممبر، میرا رانجھن، شہید دی ماں،سجرے زخم،ساڈا راج دُلارا، بھکھ دا ہاڑا،ہجرت در ہجرت‘‘ شامل ہیں۔ ان کی نظم ’’آٹا‘‘ کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے؎ ہائے۔ویلے دیا حاکماں،پنجاب دیا والیا سانوں آٹے دا وی گھاٹا، تیرے کُتیاں نُوں کھیر تیرے ریشمی دوشالے ،ساڈے تن نہ لِیر بھنیاں پائوندیاں نے وین،پُکھّے روندے نیں ویر تیرے ہتھ آئی کائیوں ساڈی تقدیر پنجاب دیا والیا جس وقت بابا جی کی یہ نظم اخبار میں شائع ہوئی ممتاز دولتانہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے۔ اس نظم کی اشاعت پر انھوں نے اخبارکو نوٹس بھجوایا۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ بابا جی کی اِس نظم نے ممتاز دولتانہ کو سخت پریشان کیا تھا۔طنز کی شِدّت سے بھر پور اس نظم کو عوام کی طرف سے بہت پزیرائی ملی۔ اِسی طرح کشمیر کے موضوع پر انھوں نے ایک خوبصورت نظم تحریر کی جو کچھ یوں تھی؎ پاکستانی رانجھیاں دی ہیر کشمیر اے ہیر دی جُدائی والا سینے وچ تیر اے رہنا ں کشمیر نئیں لٹیریاں دے ہتھ وچ بڑا چِررہیا اے بیتھریاں دے ہتھ وِچ ہن ساڈے وس وِچ ساڈی تقدیر اے پاکستانی رانجھیاں دی ہیر کشمیر اے ان کی ایک اور نظم ’’شہید دی ماں‘‘ نے بھی بہت مقبولیت حاصل کی: میں شہید دی آں ماں،میں شہید دی آں ماں سدا میرے اُتّے ہووے بی بی فاطمہ دی چھاں میں شہید دی آں ماں 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں جہاں ہمارے دیگر شعرا نے اپنے نغمات کے ذریعے پاک فوج کا حوصلہ بڑھایا وہاں بابا عالم سیاہ پوش نے بھی اپنا حصّہ ڈالا۔ اِس حوالے سے اُن کی اِس نظم کو بہت پسند کیا گیا: چل دو قدماں تے دِلی اے اے دِلّی ساڈی بِلّی ہے اساں صدیاں دِلّی حُکم چلایا اے لالیاں کولوں ان داتا اکھوایا اے ساڈے تخت دا اُچاّ پایا اے سانوں دولت ایمان دی مِلی اے چل دو قدماں تے دلّی اے بابا جی تمام عُمر معاشی تنگدستی کا شِکار رہے۔ انھیں شہرت تو بہت ملی لیکن اِس شہرت نے انھیں مالی تحفظ نہیں دیا۔ ہمارے فلمسازوں کے خلاف شروع سے ہی فنکاروں کو بہت سی شکایات رہی ہیں۔ان پر الزام ہے کہ یہ لوگ چند فنکاروں کو ہی معقول معاوضہ دیتے تھے اور اکثریت کو یا تو معاوضہ دیتے ہی نہیں تھے اور اگر دیتے تھے تو بہت کم۔ فلمی شاعروں کے بارے میں بھی ان کا وتیرہ یہی رہا ہے۔ وہ تو قتیل شفائی اور احمد راہی جیسے دبنگ شاعر تھے جن سے فلمساز بھی خائف رہتے تھے۔قتیل شفائی نے سب سے پہلے رائلٹی کا مسئلہ اٹھایا تھا۔ باباعالم سیاہ پوش بھی فلمسازوں کی روایتی چیرہ دستیوں کا شکار رہے۔لیکن وہ اپنی بے بسی پر کڑھتے رہے اور اپنے کرب کو اپنے نغمات میں ڈھالتے رہے۔رہا یہ سوال کہ انھیں بابا عالم سیاہ پوش کیوں کہا جاتا ہے تو اِس بارے میں اُن کے خاندان کے افراد کا کہنا ہے کہ بابا جی نے جوانی میں ہی دنیا داری کو تیاگ دیا تھا اور اُس کے بعد سیاہ کپڑوں میں ملبوس رہتے تھے۔اس پر انھیں بابا عالم سیاہ پوش کہا جانے لگا۔اُن کے دوستوں اور بہی خواہوں نے انھیں سمجھایا کہ جو اسلوبِ زندگی انھوں نے اپنا لیا ہے وہ غلط ہے۔ دنیا داری مکمل طور پر تیاگ دینا دانش مندی نہیں۔ پھر بابا جی دنیا داری کی طرف لوٹے اور پھر آخر تک کُرتے پاجامے میں ملبوس رہے۔ دنیا داری اپنانے کے بعد انھوں نے قلم ہاتھ میں لے لیا اور پھر اپنا سارا دُکھ اورکرب اپنی تخلیقات میں سمو دیا۔اُن کی شخصیت کا یہ پہلو بھی انتہائی قابلِ تحسین ہے کہ غربت و افلاس کے باوجود انھوں نے زندہ دِلی نہیں چھوڑی۔ وہ بہت خوش اخلاق اور ملنسارتھے۔اپنی انہی خصوصیات کی وجہ سے وہ رجائیت پسند (Optimistic)تھے۔ انھیں مایوسیوں کے اندھیروں میں اُمید کی روشنی ضرور نظر آتی تھی۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہ عُمر بھر آٹے دال کی فِکر سے آزاد نہ ہو سکے۔ دو مارچ 1970ء کو یہ بے مثل شاعر زندگی کی تمام پریشانیوں سے نجات پا گیا۔ لاہور (اچھرہ) میں دفن ہیں