ان سے پوچھو کہیں برابر ہوسکتے ہیں وہ لوگ جو جاننے والے ہیں اور وہ جو نہیں جانتے؟ [1]
خطا: تصویر نا درست یا غیر موجود ہے۔
سائنس کسے کہتے ہیں؟
سائنس کو اردو میں علم کہتے ہیں اور علم کا مطلب ہوتا ہے جاننا یا آگہی حاصل کرنا، لہذا سائنس کا مطلب بھی جاننے اور آگہی حاصل کرنے کا ہی ہوتا ہے۔ اپنے اردگرد کے ماحول کا مشاہدہ کرنا اور مختلف قدرتی چیزوں کے بارے میں سوچنا ہی سائنس ہے، اور اس طرح غور کرنے اور سوچنے والے شخص کو سائنسدان کہا جاتا ہے۔ یعنی سائنسدان وہ ہوتا ہے جو مشاہدہ کرتا ہے اور سوچ کر کوئی نتیجہ اخذ کرتا ہے۔ سائنسدان کو اردو میں عالم کہتے ہیں اور اس لفظ کی جمع علماء کی جاتی ہے۔ اگر آپ نے کبھی کسی پودے کو خشک ہوتے ہوئے دیکھ کر یہ اندازہ لگایا کہ اگر پودوں کو پانی دیا جائے تو وہ ہرے بھرے ہو کر بڑے ہوجاتے ہیں اور اگر پانی نہ دیا جائے تو وہ سوکھ جاتے ہیں تو آپ نے دو کام کیئے؛ ایک تو یہ کہ آپ نے پودوں کے سوکھنے اور سبز ہوجانے کے قدرتی عمل کو دیکھا اور مشاہدہ کیا اور دوسرے یہ کہ آپ نے یہ غور کیا اور سوچا کہ ایسا پانی کی کمی یا قلت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ بس یہی مشاہدہ کرنا اور پھر اس کے بارے میں سوچنا سائنس ہے، اس طرح قدرتی عوامل اور مظاہر کا مشاہدہ کرنے اور پھر ان پر غور کرنے اور سوچنے کا یہ جو عمل ہے اس کو سائنسی طریقہ کار یا اسلوب علم کا نام دیا جاتا ہے اور اس سائنسی طریقہ کار سے جو معلومات اکھٹی ہوتی ہیں انکو بھی سائنس ہی کہا جاتا ہے۔
مخصوص سائنسی مضامین
مخصوص سائنسی مضامین تعداد میں بہت ہیں لیکن اگر ان کو ایک آسان ترتیب میں رکھا جائے یوں لکھا جاسکتا ہے
جانداروں کے بارے میں سائنس یعنی حیاتیات
حیوانیات - جانوروں کے بارے میں سائنس
نباتیات - پودوں کے بارے میں سائنس
غیرجاندراروں کے بارے میں سائنس
کیمیاء - مادے کی ساخت سے متعلق سائنس
طبیعیات - مادے اور توانائی کے خواص کی سائنس
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ریاضی کا مضمون سائنس ہے کہ نہیں ہے؟ اس موضوع پر تفصیل سے بات تو کسی اور جگہ آئے گی ؛ فی الحال تو اتنا سمجھ لیں کہ بعض ماہرین ، ریاضی کو سائنس نہیں کہتے اور بعض اسے فن میں شمار کرتے ہیں جبکہ بعض کے نزدیک ریاضی سائنس ہے کیونکہ اس میں ناصرف یہ کہ سائنسی طریقۂ کار کا اسلوب پوشیدہ ہوتا ہے بلکہ ریاضی دان ، ریاضی کے اصول ، سائنسدان کی طرح دریافت کرتے ہیں تخلیق نہیں کرتے۔
سائنس میں شامل مضامین
سائنس میں کون کون سے مضامین شامل ہیں؟ اگر آپ نے ابتدائی ہرے خانے کی تحریر کو سمجھ لیا ہے تو یقینی طور پر آپ کو یہ جاننے میں دیر نہیں لگے گی کہ سائنس میں تمام مضامین شامل ہو سکتے ہیں ، جی ہاں ، چونکہ مشاہدہ کرنا اور پھر اس مشاہدے پر غور کرنے کو ہی سائنس کہا جاتا ہے اس لیئے خواہ تاریخ کا مطالعہ ہو یا جغرافیہ کا، حیوانات کا مطالعہ ہو یا فطری مظاہر کا ؛ ان میں سے جس کے بارے میں بھی مطالعہ ، باریک بینی اور غور خوص کے ساتھ کیا جائے گا تو وہ اس کی سائنس کہلائے گا ؛ جیسے تاریخ کی سائنس ، جغرافیہ کی سائنس ، حیوانات کی سائنس یا فطرت کی سائنس وغیرہ۔
چونکہ عام طور پر دنیا کے متعدد ہنر اور علوم کا مطالعہ ، خالص سائنسی بنیادوں پر نہیں کیا جاتا اور یہی وجہ ہے کہ ان علوم کو نصابی کتابوں میں سائنس سے الگ شناخت کرنے کے لیئے انکے مخصوص نام دیئے جاتے ہیں؛ جیسے معاشرتی علوم ، دینیات ، تاریخ اور معاشیات وغیرہ۔ جبکہ وہ تمام علوم کہ جن میں مشاہدہ ، غور اور تجربات وغیرہ کرنے پڑتے ہیں ان کو سائنس کے مخصوص مضامین میں شمار کیا جاتا ہے۔ ان کی مزید تفصیل کے لیئے الٹے ہاتھ والا نیلا خانہ دیکھیں۔۔۔
کیا سائنس کوئی مغربی یا غیرملکی چیز ہے؟
کبھی آپ نے غور کیا کہ سائنس اور سائنسدان کا نام سن کر واقعی آپ کے ذہن میں کیا احساس اجاگر ہوتا ہے؟ مشرق میں رہنے والے اکثر لوگوں کے ذہن میں آج سائنس کا نام سن کر کہیں کسی گوشے میں یہ احساس ضرور ہوتا ہے کہ سائنس مغربی لوگوں سے متعلق ہے یا مغربی چیز ہے؛ اس احساس کی بڑی وجہ انگریزی کی بھرمار ہے کیونکہ اکثر سائنسی مال کو مغرب سے جوں کا توں انگریزی میں ہی خرید کر مشرق میں پھیلا دیا جاتا ہے، حد تو یہ ہے کہ دوا کے ڈبے سے اس کا طریقۂ استعمال تک علاقائی زبان کے بجائے انگریزی میں نکلتا ہے۔ انگریزی کے اس غلبے کی وجہ سے اردو یا کوئی اور علاقائی زبان بولنے والوں کی سوچ مغلوب ہو جاتی ہے اور ان کا فطری سائنسی رجحان جو کہ پیدائشی طور پر ہر بچے کو عطا ہوتا ہے وہ معدوم ہو کر رفتہ رفتہ ختم ہو جاتا ہے۔
سائنس کس نے بنائی؟
سائنس کسی ایک قوم نے پیدا نہیں کی بلکہ یہ تو انسانوں کے معاشرے اور تاریخ کی پیداوار ہے۔ سائنس تو ابتداء سے انسان کے ساتھ رہی ہے؛ اس وقت بھی جب وہ غاروں میں رہا کرتا تھا اور آج بھی ہر بچہ پیدائشی طور پر کھوجی ہوتا ہے، وہ اپنے ارد گرد کی چیزوں کے بارے میں جاننا چاہتا ہے۔ اور ایک سائنسدان بھی کھوجی ہوتا ہے وہ بھی اپنے ارد گرد کی چیزوں کے بارے میں جاننا چاہتا ہے؛ اس لحاظ سے اگر یہ کہا جائے کہ ہر بچہ ، پیدائشی طور پر سائنسدان ہوتا ہے تو غلط نہیں ہوگا۔ رفتہ رفتہ انسان ان باتوں کو چھوڑ دیتا ہے جن سے اسے کوئی فائدہ نظر نا آئے اور اس طرح پیدائشی سائنسدان ختم ہوتا چلا جاتا ہے، لیکن صرف وہ باتیں اس کو یاد رہ جاتی ہیں جنہیں وہ ضروری سمجھتا ہے۔ آج بھی گھروں میں جب نانی اماں ، چنے کی دال کا حلوہ بناتی ہیں تو وہ چاشنی میں دال ڈالنے سے قبل اس سے کھنچنے والے تاروں کا بغور جائزہ لیتی ہیں۔ انہیں خوب پتا ہوتا ہے کہ اگر ایک تار کا بھی فرق رہ گیا تو یا تو دال پھول جائے گی اور حلوہ یا جمے گا ہی نہیں اور یا پھر پتھر جیسا سخت ہو جائے گا۔ یہ سب کیا ہے؟ یہ مشاہدہ ، اس سے سیکھنا اور پھر تجربہ کرنا یہی سب سائنس ہے! خواہ نتیجے میں حلوہ تیار ہو یا کوئی گاڑی تیار ہو یا کمپیوٹر تیار ہو۔