'اپنے ہی گراتے ہیں نشیمن پر بجلیاں!'          RAO MUHAMMAD UMAR FAROOQ   

روزِ ازل سے لے کر آج تک تاریخ اسلام کاگہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ مذہب اسلام کو جس دَور میں بھی خطرات سے پالا پڑا ہے اس میں اپنوں ہی کی ’’مہربانیاں‘‘ اثرانداز رہی ہیں۔ غیر اقوام نے اسلام کو اس قدر نقصان نہیں پہنچایا، جس قدر اسلام کو اسی کے ماننے والوں نے نقصان پہنچایا ہے۔ جہاں کہیں تاریخ کے ورق پر خون کے دھبے دِکھائی دیتے ہیں، وہاں پر مذہب اور ملت کے غداروں کا نام ہی رقم نظر آتا ہے۔یوں تو حق کا مقابلہ ہر دَور میں باطل کے ساتھ جاری و ساری رہا ہے، مگر اس حقیقت سے انکار کرنا کسی صورت ممکن نہیں کہ اس باطل کی پشت پناہی میں اپنوں ہی کی کارستانیاں کارفرما تھیں۔ اپنوں نے ہی اسلام کی عمارت میں دراڑیں ڈال کر اسے کھوکھلا کرنے کی مذموم کوشش کی ہے اور کرتے چلے آ رہے ہیں۔ ہم جب تاریخ کے چہرے سے نقاب ہٹا کر شروعاتِ اسلام سے دیکھنا شروع کرتے ہیں تو ہمیں ہر دَور، ہر دِن اور ہر لمحہ میں اپنوں ہی کے تیز دھارے نظر آتے ہیں۔ اگرچہ نقصان دوسروں نے بھی ضرور پہنچایا ہے مگر ان کی پیٹھ تھپکنے والے اپنے ہی تھے۔ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلانِ نبوت کو سُن کر چند مٹھی بھر جانثار آپ کی ہم رکابی میں چل پڑے۔ اعلانِ حق و صداقت واشگاف انداز میں گونجتا رہا اور قبول کرنے والے قبول کرتے رہے، مگر ان قبول کرنے والوں میں چند ایسے بھی تھے جو بظاہر تو جانثار تھے، مگر حقیقت میں منافق تھے۔ اپنوں کا روپ دھار کر غیروں کے اشاروں پہ ناچنے کی ابتدا کر کے اُنہوں نے اندر ہی اندر اسلام کی جڑوں کو کاٹنا شروع کیا اور یہ اپنوں کا ہی ایک روپ تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب اس دُنیا سے رحلت فرما گئے تو حضرت ابوبکر صدیقؓ کی راہ میں روڑے اٹکانے والے بھی اپنوں ہی میں سے تھے، مگر اپنے نہ تھے۔ خلفائے راشدین کے دَور میں درپردہ رہ کر مذہب کی سالمیت اور بقا کی چادر کو تار تار کر دینے کے خواب دیکھنے والے بھی اپنوں ہی کے روپ میں تھے۔ تاریخ میں ہمیں جہاں ظلم ملتا ہے، وہاں اپنوں کا آستین ہی خون میں ڈوبا نظر آتا ہے، جہاں تلواروں کی جھنکار سنائی دیتی ہے، وہاں پر نیام سے تلواریں نکالنے والے اپنوں ہی کے ٹولے دِکھائی دیتے ہیں۔ جہاں کہیں پیٹھ میں خنجر پیوست نظر آتا ہے، وہاں پر دستہ اپنوں ہی کے ہاتھوں کی نشان دہی کرتا دِکھائی دیتا ہے۔ محمد بن قاسمؒ ، سلطان محمود غزنویؒ ، سلطان صلاح الدین ایوبی ؒ ، ٹیپو سلطان ؒ اور سراج الدولہؒ جیسے سینکڑوں نامور سپہ سالاروں کی راہ میں دیوار بن کر کھڑے ہونے والے بھی اپنوں ہی کے لباس میں تھے۔ محمد بن قاسمؒ کے عظیم خون سے اپنوں ہی کی تلوار تر ہوئی۔ غزنویؒ اور ایوبیؒ کو مختلف حربی چالوں سے موت کی طرف دھکیلنے کے منصوبے بنانے والے بھی اپنے ہی تھے۔ غیروں کے اشاروں پہ ناچتے یہ نام نہاد ’’اپنے‘‘ ہر دَور میں ایک ناسور کی حیثیت سے رہے ہیں۔ میر جعفر اور میر صادق بھی تو اپنے ہی تھے۔ مگر اپنوں کے روپ میں چھپے ان آستین کے سانپوں کو وقت سے پہلے کوئی نہ جان سکا۔ آج کشمیر کے گلزاروں میں خون کے فوارے چھوٹ رہے ہیں، فلسطین خون میں ڈوبا ہوا ہے، عراق کے گلی کوچے ویران دکھائی دیتے ہیں۔ سربریدہ لاشیں، بے گور و کفن بکھری پڑی ہیں۔ بوسنیا اورفلپائن میں خونِ مسلم کی ارزانی دِکھائی دیتی ہے تو اِن میں درپردہ اپنوں کا ہی ہاتھ ہے۔ غرناطہ و سمرقنداور بخارا و بغداد کی دیواروں پہ خون سے قصیدے لکھے دِکھائی دیتے ہیں تو وہ اپنوں ہی کی مہربانیاں ہیں۔ محبت، اخوت، رواداری اور انسانی حمیت کا قتلِ عام کرنے والے بھی تو اپنے ہی ہیں۔ اپنوں کے ہاتھوں میں کارتوس ہیں اور اپنوں ہی کے سینے ہیں مگر اس کارتوس میں بارود اور کارتوس بردار کے دل میں نفرت کا لاوا انڈیلنے والے غیر ہیں جو اپنوں کو اپنوں ہی کے ہاتھوں نیست و نابود کرنے کا عزم کیے ہوئے ہیں۔ اپنوں کے ہاتھ ہی اپنوں کا گریبان پھاڑ رہے ہیں۔ قتل و غارت کرنے والے بھی اپنے ہی ہیں اور جن کے لاشے تڑپ رہے ہیں وہ بھی اپنے ہی ہیں۔ نوجوان نسل کی رگوں میں بے حیائی کا رس انڈیلنے والے بھی اپنے ہی ہیں۔ مگر آج تک ہم بھولپن میں ان اپنوں کے شکار ہوتے چلے آ رہے ہیں۔ نہ جانے یہ ’’اپنے‘‘ کیسے اپنے ہیں جو اپنوں ہی کے دشمن ہیں۔ یہ اپنے تو ہو ہی نہیں سکتے۔ بھلا اپنوں کے گلوں پہ کوئی چھری پھیر سکتا ہے، اپنے کیا خون بہا سکتے ہیں؟ کیا اپنے رقصِ بسمل دیکھنے کے عادی ہوتے ہیں؟ کیا اپنے خون کے پیاسے ہوا کرتے ہیں؟ نہیں! ہرگز نہیں! مگر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب اپنے غیر بن جاتے ہیں۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب دولت کی تجوریاں سامنے ہوں۔ جب عیش و آرام کے سنہرے خواب تعبیر مانگنا شروع کر دیں۔ جب خواہشات مچلنا شروع ہو جائیں تو پھر اس صورت میں اپنے بھی غیر بن جاتے ہیں۔ آج تک اسلام کو نقصان پہنچانے والے اگرچہ اپنوں کے روپ میں تھے مگر وہ اپنے ہرگز نہ تھے، وہ غیر تھے جبھی تو اُنہوں نے اپنوں کو دبانے کی کوششیں کیں..... آج عالمِ اسلام میں ایسے ’’اپنے‘‘ بہت سے ہیں جو محبت کا نعرہ لگاتے، ہم سے دوستیاں جوڑتے، ہم سے مسکرا کے ملتے اور ہمارے دُکھ درد کے ساجھی بننے کی کوششیں کرتے ہیں، لیکن وہ ہمارے اپنے ہرگز نہیں کیونکہ اپنا تو وہ ہوتا ہے جو ’’اپنا آپ‘‘ اپنوں کے حوالے کر دے اور جو ’’اپنا آپ‘‘ اپنوں کے حوالے کرنے کی بجائے غیروں کے حوالے کر دے، وہ اپنا تو نہ ہوا، وہ تو غیر ہوا اور ایسے غیر ہمارے ہاں تھوک کے حساب سے ہیں۔ ان اپنوں کے لبادے میں چھپے غیروں کو ہمیں مکمل یکسوئی اور کوشش کے ساتھ تلاش کرنا ہوگا، وگرنہ ہمیں یہ ’’اپنے‘‘ ہی دفن کر دیں گے۔ آج اگر اس مملکتِ خداداد پر مختلف صورتوں میں مشکلات منڈلا رہی ہیں تو یہ نام نہاد ’’اپنوں‘‘ ہی کی مہربانیاں ہیں، جنہوں نے ’’اپنے ہونے‘‘ کا نعرہ لگا کر بھی غیر کا ساتھ دیا اور بظاہر اپنے بنے رہے۔ آج اگر ہم نے اس مملکت میں سے اِن اپنوں کو نکال باہر نہ کیا تو یہ ’’اپنے‘‘ ہمیں بھی غیروں کے حوالے کر دیں گے اور اپنے اس ملک کو بھی۔ خدارا! اب ذرا ہوش میں آیئے اور ’’اپنوں‘‘ کے لباس میں چھپی ان کالی بھیڑوں کو نکال باہر کیجیے۔ یہ ’’اپنے‘‘ نہیں ہیں، پرائے ہیں۔ ان کی پیشانیاں اپنی نظر آتی ہیں، مگر اہلِ نظر لوگ ان کی جبینوں پہ لکھے ریا اور کبر کے فرمان کو پڑھ لیتے ہیں۔ اب ان ’’اپنوں‘‘ کو نکالنا ہوگا، کیونکہ ہر دَور میں ’’اپنے ہی گراتے ہیں نشیمن پہ بجلیاں!‘‘