بایزید روشن جالندھری دسویں صدی ہجری کا ایک جھوٹا نبی تھا۔ جس نے مغلیہ سلطنت کے خلاف کئی بار بغاوت بھی کیں تھیں۔ اس کے پیرو کار سرحدی علاقے کے قبائل تھے۔ اس کے پیرو کار مغل بادشاہ شاہ جہاں تک موجود رہے۔

بایزید کذاب جالندھری
معلومات شخصیت

تعارف ترمیم

یزید روشن جالندھری کا پور نام بایزید ابن عبد اللہ انصاری تھا۔ 931ھ بمقام جالندھر (پنجاب) میں پیدا ہوا۔ بڑا عالم اور صاحب تصنيف تھا۔ حقائق و معارف بیان کرنے میں یدطولی رکھتا تھا اور لوگوں کے دلوں پراس کی علمیت اور کمالات کا سکہ جما ہوا تھا۔ اس کے دعوی نبوت سے پہلے میں ہمایوں بادشاہ کے خلفمرزا محمد کلیم صوبہ دار کابل نے اپنے دربار میں علما سے اس کا مناظرہ کروایا تھا۔ علمائے کابل جو علوم عقلیہ سے بالکل تہی دست تھے روایتوں کے اسحلہ سے مسلح ہو کر مقابلے پر آئے مگر بایزید کے سامنے ان کو کامیابی نہ ہو سکی اور صوبہ دار بایزید کی علمیت اور زور کلام سے اتنا مرعوب ہوا کہ خود ہی اس کا معتقد ہو گیا۔

اہل اللہ کی صحبت سے محرومی کا نتیجہ ترمیم

ابتدا میں یہ شخص ہر وقت یاد الہی میں مشغول رہتا اور تقوی پرہیز گاری کی زندگی گزارتا تھا۔ اس وقت اس کے رشتہ داروں میں ایک شخص خواجہ اسماعیل نامی اہل اللہ میں سے تھا اور صاحب ارشاد بھی تھا۔ بایزید نے بھی اس کے حلقہ ارادت میں داخل ہونا چاہا مگر اس کا باپ عبد اللہ مانع ہوا اور کہنے لگا کہ میرے لیے یہ بات بڑی بے عزتی کی ہے کہ تم اپنے ہی عزیزوں میں سے ایک غیر مشہور آدمی کے ہاتھ پر بیعت کرو۔ بہتر یہ ہے کہ ملتان جاؤ اور شیخ بہاؤ الدین زکریا ملتانی کی اولاد میں سے کسی کو اپنا شیخ بناؤ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بایزید کسی شیخ سے بھی مرید نہیں ہوا اور اہل اللہ کی صحبت اس کو نصیب نہ ہو سکی انجام کارشیطان کے اغواء کا شکار ہو گیا۔ تمام مشائخ اس پر متفق ہیں کہ جیسے ہی کوئی شخص اللہ تعالی کی عبادت و اطاعت اور تقوی و پرہیزگاری کا راستہ اختیار کرتا ہے ابلیس کی طرف سے اس کو اس راستے سے ہٹانے کی کوششیں شروع ہو جاتی ہیں۔ ابلیس کے ہزاروں مکر و فریب ہیں وه عالموں، زاہدوں اور عابدوں کو ان کے من بھاتے طریقے سے گمراہ کرتا ہے۔ بایزید بھی اسی طرح گمراہ ہوا۔ شیطان کا اس پر پورا قابو چل گیا اور اپنی ریاضت و عبادت کے انوار و ثمرات سے بہک کر اپنے آپ کو عرش بریں پر خیال کرنے لگا اور یہ خیال یہاں تک بڑھا کہ اپنے آپ کو نبی کہنے لگا اور لوگوں سے کہتا تھا کہ جبریل امین میرے پاس اللہ تعالی کی طرف سے پیغام لاتے ہیں اور میں الله تعالی سے ہم کلام ہوتا ہوں۔ اس نے لوگوں سے کہا کہ مجھے غیب سے ندا آئی ہے کہ سب لوگ آج سے تمھیں روشن پیر کہا کریں گے چنانچہ اس کے ماننے والے اس کو ہمیشہ اسی لقب سے یاد کرتے ہیں۔ لیکن عام مسلمین میں وہ تاریک پیر اور پیر ظلالت کے نام سے مشہور ہے۔

لوگوں کو گمراہ کرنے کی کارروائیاں ترمیم

بایزید جب کالنجر سے کافی کرم آیا تو یہاں اس نے اپنے عقیده تناسخ کی اشاعت شروع کر دی۔ بایزید کا باپ عبد اللہ جو ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھا بیٹے کی اس گمراہی پربہت غضبناک ہوا اور غیرت دینی سے مجبور ہو کر بایزید پر چھری لے کر چل پڑا۔ بایزید بری طرح مجروح ہوا اور کامی کرم چھوڑ کر افغانستان کے علاقے ننگرہار چلا آیا اور قبیلہ مہمند میں سلطان احمد کے مکان میں رہنے لگا۔ جب وہاں کے علما کو بایزید کی گمراہی اور بدمذہبی کا حال معلوم ہوا تو سب اس کی مخالفت پر متفق ہو کر اٹھ کھڑے ہوئے اور لوگوں کو بایزید کے عقائد سے آگاہ کرنے لگے اس لیے لوگ اب اس سے دور بھاگنے لگے جب وہاں اس کا جادو نہ چل سکا تو یہ پشاور جا کر غوریا خیل پٹھانوں میں رہنے لگا۔ یہاں چونکہ کوئی عالم دین اس کی مزاحمت کرنے والا نہیں تھا اس لیے اسے خاطر خواہ کامیابی ہوئی یہاں تک کہ اس علاقے میں بلا شرکت غیر ے اپنی پیشوائی اور مشیعت کا سکہ چلانے لگا اور قریب قریب ساری قوم خیل اس کی اطاعت کرنے لگی۔ بایزید یہاں اپنا تسلط قائم کر کے اب ہشت نگر وارد ہوا۔ یہاں بھی اس کی اطاعت اور عقیدت کا بازار گرم ہو گیا۔

ایک عالم دین اخوند درویزہ سے بایزید کا مناظرہ ہوا جس میں بایزید مغلوب بھی ہو گیا مگر اس کے مرید ایسے اندھے خوش اعتقاد اور طاقتور تھے کہ اخوند درویزه کی ساری کوششیں بیکار ہو گئیں۔ جب بایزید کی مذہبی غارتگری کا حال کابل کے گورز محسن خان نے سنا جو اکبر بادشاہ کی طرف سے کابل کا حاکم تھا تو وہ بہ نفس نفیس ہشت نگر آگیا اور بایزید کو گرفتار کر کے لے گیا اور ایک مدت تک اس کو قید میں رکھ کر رہا کر دیا۔ بایزید ہشت نگر آ گیا اور اپنے مریدوں کو جمع کر کے آس پاس کے پہاڑوں میں جا کر مورچہ بند ہو گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس نے آفریدی اور درگزی پٹھانوں کو بھی اپنے مریدی کے رام میں پھانس لیا اور اہل سرحد کے دلوں میں اس کی عقیدت کی گرمی اس طرح دوڑنے لگی جس طرح رگوں میں خون دوڑتا ہے۔

عالم حق سے مکالمہ ترمیم

جس طرح ابلیس ہندستان کے جھوٹے نبی مرزا قادعیانی کو اپنی جھوٹی نورانی شکلیں دکھایا کرتا تھا اور مرزا گمراہ ہو کر اس کو اپنا معبود برحق سمجھتا تھا اسی طرح بایزید بھی ابلیس کے شعبدے اور اس کی فریبی نورانی شکل دیکھ کر اس کو (معاذ اللہ) خدائے برتر سمجھ بیٹھا تھا۔ چنانچہ اسی یقین کی بدولت کہ میں نے خدا کو دیکھا ہے دوسروں سے سوال کیا کرتا تھا کہ تم لوگ کلمہ شہادت اشھدان لا الہ الا اللہ پڑھنے میں جھوٹے ہو کیونکہ جس نے خدا کو نہیں دیکھا پھروہ کہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں تو وہ اپنے قول میں جھوٹا ہے کیونکہ جو خدا کو نہیں دیکھتا اس کو پہچانتا بھی نہیں۔ ایک سرحدی عالم کے ساتھ بایزید کذاب کی بعث ہوئی۔

  • عالم صاحب: تمھیں کشف القلوب کا دعوی ہے بتاؤ اس وقت میرے دل میں کیا ہے؟

بایزید کذاب: (ملحدانہ عیاری سے کام لیتے ہوئے) میں تو یقیناً کاشف قلوب اور لوگوں کے خیالات سے آگا ہوں لیکن چونکہ تمارے سینے میں تو دل ہی نہیں ہے اس لیے میں کیا بتا سکتا ہوں۔

  • عالم صاحب: اس کا فیصلہ بہت آسان ہے۔ یہ قوم کے لوگ سن رہے ہیں۔ تم مجھے قتل کر دو اگر میرے سینے سے دل برآمد ہو جائے تو پھر لوگ میرے قصاص میں تمھیں بھی قتل کر دیں گے۔

بایزید کذاب: یہ دل جس کو تم دل سمجھتے ہو یہ تو گائے ، بکری اور کتے تک میں موجود ہے۔ دل سے مراد گوشت کا ٹکڑا نہیں دل اور ہی چیز۔ رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قلب المومن اكبر من العرش ووسع من الكرسی" "مومن کا دل عرش سے زیادہ بڑا اور کرسی سے زیادہ وسیع ہے"

(بایزید کا یہ بیان بالکل لغو ہے دل اسی گوشت کے لوتھڑے کو کہتے ہیں جو صوفیائے کرام کی اصلاح میں لطیفہ قلب کی جگہ ہے اور حدیث شریف میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے اگر اس کی اصلاح ہو جائے تو سارے جسم کی اصلاح ہو جاتی ہے اور جب اس میں فساد رونما ہو تو سارا جسم فاسد ہو جاتا ہے اور وہ لوتھڑ دل ہے۔ مومن کے دل کا عرش سے بڑا ہونا اور کرسی سے وسیع ہونے کا مقولہ جو بایزید نے حضرت خیرالبشر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف منسوب کیا وہ محض جھوٹ ہے۔ یہ قول حضور علیہ السلام سے ثابت نہیں۔)

  • عالم صاحب: اچھا تم دعوی کرتے ہو کہ تمھیں کشف قبور ہوتا ہے ہم تمارے ساتھ قبرستان چلتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کوئی مردہ تم سے ہم کلام ہوتا ہے یا نہیں بولو منظور ہے۔

بایزید کذاب: مردہ مجھ سے یقیناً ہم کلام ہوگا مگر مشکل یہ ہے کہ تم کچھ نہیں سن سکو گے اگر تم مردے کی آواز سن سکتے تو میں تمھیں کافر کیوں کہتا۔ اس جواب پر لوگ کہنے لگے کہ ہم کس طرح یقین کریں کہ تم سچے ہو۔ بولا کہ تم میں سے بہتر اور فاضل شخص میرے پاس کچھ عرصہ رہے اور میرے طریقے کے مطابق عبادت و ریاضت بجالائے پھر اس سے تصدیق کر لینا۔ پاکستان کے جھوٹے نبی مرزا قادیانی نے بھی اسی قسم کی مضحکہ خیز شرط پیش کی تھی کہ جو کوئی میرا معجزہ دیکھنا چاہے وہ قادیان آئے اور نہایت حسن اعتقاد کے ساتھ ایک سال تک رہے اس کے بعد میں معجزہ دکھا دوں گا۔

مغل بادشاہ اکبر کے مقابلے پر ترمیم

سرحد کے عقیدت مندوں سے طاقت حاصل کر کے بایزید نے سرحد میں اپنے قدم مضبوطی سے جما لیے یہاں تک کہ اکبر بادشاہ کی اطاعت سے باہر ہو کر علی الاعلان اس کا حریف بن کر مقابلے پر آگیا۔ بایزید اپنی تقریروں میں کہتا کہ مغل بڑے ظالم اور جفا پیشہ ہیں انھوں نے افغانوں پر بڑے ظلم توڑے ہیں۔ اس کے علاوہ اکبر بادشاہ سخت بے دین ہے اس لیے اس کی اطاعت ہر کلمہ گو پر حرام ہے۔ ان تقریروں کا یہ اثر ہوا کہ ہر جگہ مغلیہ سلطت کے خلاف اشتعل پیدا ہو گیا اور اکثر سرحدی قبائل اکبر بادشاہ سے منحرف ہو گئے۔ جب بایزید کی بغاوت حد سے بڑھ گئی تو اکبر کے کان کھڑے ہوئے اور اس نے ایک لشکر جرار اس کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا مگر مقابلہ ہوتے ہی بایزید کے ہاتھوں شکست کھا گیا۔ اس سے بایزید کے حوصلے اور بڑھ گئے اور افغانوں کی نظر میں شاہی فوج کی کوئی حقیقت نہ رہی اور ان کے علاقوں میں اکبری حکومت کے خلاف اپنے اپنے مفاسد پیدا ہوئے جو کسی طرح بھی ایک حکومت کے زوال کا باعث ہو سکتے تھے۔ جلال الدین اکبر بادشاہ یہ سب کچھ دیکھ رہا تها لہذاا اس نے ایک شاطرانہ چال چلی اور وہ یہ کہ اس نے سب سے پہلے اہل تراه کو اندرون خانہ خوب انعام و اکرام اور مال و دولت سے نواز کر ہم نوا بنالیا۔ اب بظاہر تو اہل تراه بایزید کا کلمہ پڑھتے تھے مگر بیاطن سلطنت مغلیہ کے وفادار تھے۔ جب بایزید کو اہل تراہ کے اس مکر و فریب کا حال معلوم ہوا تو اس نے ان پر حملہ کر کے سینکڑوں کو قتل اور سینکڑوں کو ملک بدر کر کے پورے علاقے پر اپنا تسلط قائم کر لیا۔ اس کے بعد اس نے ننگر ہار پر حملہ کر کے اس کو اپنے قبضے میں لے لیا اور جن بستیوں نے اس کے حکم سے ذرا بھی سرتابی کی انھیں لوٹ کر برباد کر دیا۔ اس طرح اب سرحد میں کسی کو اس کی اطاعت سے انکار کی جرات نہیں رہی۔ مگر بایزید کے ظلم سے اور لوٹ مار سے لوگوں کے دل میں اس کی عقیدت کم ہونے لگی اور بعض قبائل نے اس سے منحرف بھی ہونا چاہا مگر چونکہ اس کی قوت اور شان و شوکت سے سب مرعوب تھے اس لیے کوئی مخالفت کامیابی نہ ہو سکی۔ اکبر بادشاه بایزید کی بڑھتی ہوئی قوت دیکھ کر ہر وقت اس کی سرکوبی کے منصوبے بناتا تھا آخر کار اس نے بڑے اعتماد کے ساتھ ایک فوج گراں اس کے مقابلے کے لیے روانہ کی اور کابل کے صوبہ دار حسن خان کو بھی حکم دیا کہ ایک طرف وہ اس پر حملہ کرے۔ چنانچہ کابل سے محسن خان اور دوسری طرف شاہی افواج نے بایزید کی فوج پر حملہ کر دیا۔ میدان جنگ آتش قتال سے بھڑک اٹھا ہر چند ہر طرف سے قبائی بایزید کذاب کی حمایت میں آ رہے تھے مگر اب کذاب کا ستارہ روبہ زوال ہو چکا تھا۔ وہ دو طرفہ فوجوں کے مقابلہ میں ٹھہر نہیں سکا اور شکست کھا کر بھاگا۔ بہت سے اس کے فوجی مارے گئے اور باقی نے دشوار گزار پہاڑوں پر چڑھ کر جان بچائی۔ خود بایزید کذاب ہشت نگر آکر از سر نو لشکر کی ترتیب میں مشغول ہوا مگر اس کی عمر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔ افغانستان کے سلسلہ کوہ میں بھیتر پور کی پہاڑیوں میں اس کا آخری وقت گذرا اور اس علاقے میں اس کی قبرواقع ہے۔ بایزید کذاب کے مرنے کے بعد اس کی اولاد نے ایک عرصے تک مسلمانوں پر لوٹ مار اور قتل و غارت گری کا بازار گرم رکھا۔ مغل بادشاہ اکبر اور اس کے بیٹے جہانگیر اس کی اولاد کا ٹکراؤ ہوتا رہتا تھا آخر کار شاہجہاں بادشاہ کے زمانے میں اس کی اولاد مغلیہ سلطنت کی مطیع ہوگی اور جھوٹی نبوت کے پیرو بھی ختم ہو گئے۔


خود ساختہ شریعت ترمیم

جیسے کہ آج تک کذاب یمامہ سے لے کر کذاب قادیان تک ہر جھوٹے نبوت کے دعویداروں نے اپنی خانہ ساز شریعتیں جاری کیں یا رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شریعت مطہرہ میں ترمیم و تنسیخ کی جسارت کی۔ اسی طرح بایزید کذاب نے بھی اپنی شریعت گڑھی تھی اور عربی عبارتیں لکھ لکھ کر اپنی مرضی کے مطابق ڈھال کر اس کو نبی علیہ الصلوة والسلام کی طرف منسوب کر دیتا تھا۔ مثلاً کہتا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمايا ہے

  • الشریعیته کمثل اليل والطبريقته كمثل النجوم والحقيقته كمثل القمر والمعرفته كمثل الشمس وليس فوق الشمس شی

ترجمہ: شریت رات کی طرح ہے اور طریقت ستاروں کی طرح۔ حقیقت چاند کی مانند ہے اور معرفت آفتاب کی طرح ہے اور آفتاب سے بڑھ کر کوئی شے نہیں۔ حالانکہ یہ دعوی بالکل غلط اور باطل ہے کہ شریعت رات کی طرح ہے ان خرافات کا قائل سوائے ملحد وں اور زندیقوں کے کوئی اور نہیں ہوتا چہ جائیکہ ان خرافات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف منسوب کرنا۔

بایزید کذاب نے ایک کتاب بنام خیرالبيان چار زبانوں عربی ، فارسی ، ہندی اور پشتو میں لکھی اور اس کو کلام الہی کہہ کر لوگوں کے سامنے پیش کیا اور کہا کہ میں نے اس میں وہی کچھ لکھا ہے جو الله تعالی نے مجھ پر وحی کیا ہے۔

نفسانی شریعت کے احکام ترمیم

فخر موجودات جناب رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شریعت مطہرہ کے جتنے بھی احکام ہیں وہ سب انسان کے نفس امارہ کی خواہشات کی مخالفت پر مبنی ہیں تا کہ انسان ان پر عمل کر کے اپنے نفس اماره پر غالب آئے اور اس کو صفائے نفس نصیب ہو اور قلب حق تعالی کی تجلیات کا متحمل ہو سکے۔ اس حدیث شریف میں اسی طرف اشارہ ہے:

  • الا وان الجنته حفت بالمكاره وان النار حفت بالشهوات

ترجمہ : ”سن لو جنت نفس کے خلاف کام کرنے سے حاصل ہو گی اور دوزخ میں لوگ اپنے نفس کی شھوات کی پیروی کی وجہ سے جائیں گے" چنانچہ جتنے شریعت مطہرہ کے احکام ہیں وہ سب نفس کے خلاف ہیں مثلاً روزه ، خیرات ، نماز ، وضو ، زکوة ، حج ، غسل جنابت وغیرہ اور یہ سب انسان کو جنت میں لے جانے والے اعمال ہیں۔ اس کے برعکس آج تک جتنے جھوٹے نبوت کے دعویدار کذاب یمامہ سے کذب قادیان تک ظاہر ہوئے ہیں ان سب میں ایک چیز مشترک رہی ہے اور وہ ہے ان کی خود ساختہ شہوت انگیز اور نفس امارہ کی خواہشوں کے عین مطابق ان کا دین اور شیطانی شریعت۔ چنا نچہکسی نے نمازیں پانچ کی بجائے دو کر دیں ، کسی نے روزے اڑادیئے ، کسی نے حج ختم کر دیا ، کسی نے زنا کو جائز قرار دے دیا ، کوئی غسل جنابت کو لے اڑا ،کہیں شراب حلال ہو گئی غرض کہ جہنم میں جانے کا پورا پورا بندوبست اور سامان مہیا کر دیا گیا۔ بایزید کذاب کی شریعت کے درج ذیل ہے

  1. غسل جنابت کی ضرورت نہیں۔ ہوا لگنے سے بدن خود بخود پاک ہو جاتا ہے کیونکہ چاروں عناصر آگ ، ہوا ، پانی اور مٹی پاک کرنے والے ہیں۔
  2. جو شخص مجھ پر ایمان نہ لائے وہ مسلمان نہیں۔ ایسے شخص کا ذبیحہ حرام ہے۔
  3. قبلہ کی طرف رخ کرنا ضروری نہیں۔ جدھر چاہو منہ کر کے نماز پڑھ لو۔
  4. مسلمانوں کی میراث ان کے وارثوں کی نہیں بلکہ میرے مریدوں کی ہے۔
  5. جو لوگ مجھ پر ایمان لائے بس وہی زندہ ہیں باقی سب مسلمان مردہ ہیں اور مردوں کو میراث نہیں ملا کرتی۔ ایسے مردہ مسلمانوں کو قتل کر دینا واجب ہے۔ [1]

حوالہ جات ترمیم

  1. بائیس جھوٹے نبی تالیف نثار احمد خان فتحی صفحہ 91 تا 99