بحیرہ (اونٹنی)
بحیرہ اہل عرب کا بتوں کے نام کی ہوئی اونٹنی کو دیا گیا نام جسکاذکر قرآن نے المائدہ 103 میں کیا
- مَا جَعَلَ اللّهُ مِن بَحِيرَةٍ وَلاَ سَآئِبَةٍ وَلاَ وَصِيلَةٍ وَلاَ حَامٍ وَلَـكِنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ يَفْتَرُونَ عَلَى اللّهِ الْكَذِبَ وَأَكْثَرُهُمْ لاَ يَعْقِلُونَ
- اللہ نے نہ بحیرہ کو مشروع کیا ہے اور نہ سائبہ کو اور نہ وصیلہ کو نہ حامی کو، البتہ جو لوگ کافر ہیں وہی اللہ پر جھوٹ جوڑتے رہتے ہیں۔ اور ان میں سے اکثر عقل سے کام نہیں لیتے۔
- اس میں بہت اختلاف ہے
- بحیرہ وہ اونٹنی ہے جس کا دودھ بتوں کی وجہ سے استعمال نہیں کیا جاتا تھا اس اونٹنی کا کوئی بھی دودھ نہیں نکالتا تھا
- البحیرہ سے مراد لغت میں وہ اونٹنی ہے جس کے کان کٹے ہوئے ہوں۔ ابن سیدہ نے کہا : کہا جاتا ہے بحیرہ وہ اونٹنی ہے جو بغیر چرواہے کے چھوڑی گئی ہو۔ پالتو اونٹنی کو بحیرہ کہا جاتا ہے۔
- ابن اسحاق نے کہا : البحیرہ، یہ سائبہ کی بچی ہے
- ابن عزیز نے کہا : بحیرہ وہ اونٹنی ہے جو پانچ بچے جنم دیتی ہے جب پانچواں مذکر ہوتا تو اسے ذبح کرتے اور اسے مرد اور عورتیں کھاتے اگر پانچواں بچہ مادہ ہوتا تو اس کے کان کاٹ دیتے اور اس کا گوشت اور دودھ عورتوں پر حرام ہوتا۔ عکرمہ نے کہا : جب وہ مرجاتی تو عورتوں کے لیے حلال ہوتی۔[1]
- حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا جو اونٹنی پانچ مرتبہ بیاہ چکتی تھی اس کا کان چیر کر آزاد چھوڑ دیا جاتا تھا نہ اس پر بوجھ لادا جاتا تھا نہ کوئی اس پر سوار ہوتا تھا نہ اس کا اون کاٹا جاتا تھا نہ کسی پانی اور چراگاہ سے اس کو روکا جاتا تھا۔ اگر پانچویں گیا ب میں نر بچہ پیدا ہوتا تو بچہ کو ذبح کر کے مرد عورتیں سب مل کر کھا سکتے اور اگر بچہ مادہ ہوتا تو اس کا بھی کان چیر دیتے تھے ایسی سانڈھنی کو بحیرہ کہا جاتا تھا۔[2]