برصغیر میں جدید تعلیم کا آغاز اور ارتقاء

برصغیر میں مسلمان باشاہوں نے عام لوگوں کی تعلیم کے لیے بہت سے مدارس قائم کیے۔ یہ مدارس بادشاہوں کے علاوہ مختلف لوگوں اور عالوں نے بھی جاری کیے تھے۔ ان مدارس کے اخراجات کے لیے مختلف اوقاف جاری کیے تھے کہ مدارس کو چلانے، اساتذہ اور طلبہ کے اخراجات میں کسی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ یہ مدارس کسی خاص طبقہ یا مذہب کے نہیں تھے۔ بلکہ اس کے دروازے ہر طبقہ اور مذہب کے لیے کھلے ہوئے تھے۔ ان مدارس میں مسلمانوں کے علاوہ ہندو بھی بڑے شوق سے پڑھتے تھے۔ مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد جہاں تنزلی آئی ان میں یہ مدارس بھی تھے۔ جو اب بھی جاری تھے مگر ان کی تعلیم میں جدید تعلم کی بجائے روایتی تعلیم دیتی تھی۔  

کمپنی کی پالیسی

ترمیم

ابتدا میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی پالیسی تھی کہ ہندوستان میں مشرقی زبانوں کو ترقی دی جائے۔ چنانچہ 1871ء میں کلکتہ میں وارن ہسٹنگس نے ایک مدرسہ مسلمانوں کی تعلیم کے لیے قائم کیا اور جب 1971ء میں ہندوؤں کے لیے بنارس میں سنسکرت کالج قائم کیا تو کمپنی نے اس کو بھی مالی امداد دی۔ کچھ عرصہ کے بعد ہندوستان کے لوگوں میں مشرقی علوم کی بجائے مغربی علوم کا شوق ہر پھیل گیا۔ اس کی وجوہات میں پہلا سبب عیسائی مشنریوں نے مدراس میں اسکول اور کالج کھولا اور اس میں انگریزی کی تعلیم دی جانے لگی۔ دوسرا سبب یہ جب ہندوستانیوں کو اس کی آگہی ہوئی کہ انگریزی زبان سیکھنا کار آمد اور مفید ہے تو ہندوستانیوں انگریزی تعلیم کا شوق پیدا ہوا۔ اس تحریک کے بانی راجا موہن رائے تھے اور انھی کی کوششوں سے کلکتہ میں ہندو کالج قائم ہوا۔

1818ء تا 1845ء دور انکلستان کا سنہرا دور تھا۔ یہ دور امن، اصلاح اور مادی ترقی کا دور تھا۔ اسی دور میں بمبئی کے گورنر الفنسٹن تعلیم کے بڑے حامی تھے اور انھوں نے ہندوستان میں تعلیم کے فروغ کے لیے بہت کوشش کیں۔ جب وہ بمئی رخصت ہونے پر لوگوں نے چندہ جمع کرکے ان کی یاد میں ایک الفنسٹن کالج قائم کیا۔   

اس زمانے حکومت کو ہندوستان میں جو پیچیدہ معملات پیش آئے ان میں یہ مسلہ بھی تھا کہ ہندوستان میں مشرقی تعلیم کے فروغ کے لیے کام کیا جائے یا مغربی علم اور تہذیب کو رواج دیا جائے۔ حکومتی ایوانوں میں اس مسلے پر بڑے زور شور سے بحث ہوتی رہی مگر انگریزی حکومت بھی کوئی فیصلہ نہیں کر پارہی تھی کہ کس طرز کی تعلیم ہندوستان میں رائج کی جائے۔ اس معاملے میں انگریزی حکومت میں دو مکتب فکر کے حامی تھے اور ہر فریق اپنی فکر پر ڈٹا ہوا تھا۔

میکالے رپوٹ

ترمیم

1833ء میں لاڈ میکالے گورنر جنرل کی کونسل کے ارکان مقرر ہوکر ہندوستان آیا اور انھوں نے ہندوستان میں تعلیم کے مسلے پر ایک رپوٹ پیش کی جو اس کے نام سے میکالے رپوٹ کہلاتی ہے۔

اس رپوٹ میں لارڈ میکالے نے مغربی علوم کی حمایت کی اور مشرقی زبانوں کا مزاق اڑایا تھا۔ اس نے مشرقی زبانوں کے متعلق اپنی رپوٹ میں لکھا کہ مشرقی زبانوں میں تعلیم دینے سے طلبہ کو وہی باتیں معلوم ہوں گیں جو دو ہزار سال پہلے سے ان میں پھیلی ہوئی ہیں اور اس طرح وہ نمائشی اور بے معنی موشگافیوں کی وہ تعلیم حاصل کریں گے جو ہندوستان میں لوگوں نے قدیم زمانے خیالی گھوڑے دوڑا دوڑا پیدا کر لیں ہیں اور ایسی تعلیم ہندوستان کے ہر حصہ میں مسلسل جاری ہے۔ سنسکرت کی تعلیم کا نتیجہ اس سے زیادہ کچھ نکل نہیں سکتا ہے کہ ہندوستان میں مسلسل تاریخی پھیلی رہے۔ اگر انگریزی حکومت چاہتی کہ ہنددستان کے لوگ ترقی کریں تو طریقہ تعلیم بھی تبدیل ہونا چاہیے اور اس میں ریاضی، فلسفہ، کیمیا، طبیعیات اور دیگر مفید علوم کا اضافہ ہونا چاہیے۔ مزید میکالے نے لکھا کہ کیا یہ درست ہوگا کہ عوام کے ٹیکسوں سے وہ پرانے طبی اصولوں کی تعلیم دی جائے جن کو ایک عام انگریز بھی پسند نہیں کرے گا یا علم وہ ہیت پڑھایا جائے جس کو سن کر انگلستان کے کسی اسکول کی لڑکیاں قہقہہ لگائیں یا وہ تاریخ پڑھائیں جس میں تیس تیس فٹ کے بلند قامت راجاؤں کا ذکر ہے ہو یا ان کے تیس تیس ہزار سال کے عہد حکومت کا ذکر ہو یا وہ جغرافیہ جس میں آب حیات اور دودھ کے سمندروں کا حال درج ہو۔ مزید براں میکالے نے لکھا کہ ہندوستان کے لوگوں کو ایسی تعلیم کی قطعی ضرورت نہیں جو زبردستی ان پر ٹھوسی جارہی ہے۔ انھیں جس تعلیم کی ضرورت ہے وہ ہم انھیں نہیں دے رہے ہیں۔ اس رپوٹ کے علاوہ بھی میکالے نے اپنی تقریروں اور تحریروں میں مشرقی علوم اور مصنفوں کا مزاق اڑیا تھا۔

تنقید

ترمیم

اس رپوٹ میں میکالے کے اس موقف سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے جو وہ صدق دل سے چاہتا تھا کہ ہندوستانی جدید تعلیم حاصل کریں۔ لیکن جو کچھ اس نے مشرقی خاص کر ہندوؤں کے ادب پر تنقید کی وہ کچھ زیادہ ہی بیجا بلکہ انصاف کے منافی تھی۔ اس کے مقابلے میں الفنسٹن کی رائے زیادہ مدبرانہ تھی۔ الفنسٹن نے لکھا کہ میں کبھی یہ پسند نہیں کروں گا کہ ہندوؤں کے ادب کا خالص جزو تعلیم سے خارج کر دیا جائے۔ کیوں کہ یہ باکل تعلیم کے منافی ہے کہ کسی قوم کا اپنا ادب کسمپرسی کی حالت میں رہے اور دیگر علوم سے انھیں روشناس کرایا جائے اور میری حتمی رائے ہے کہ ہندوستانی تعلیم میں اس وقت ہی ترقی کریں گے جب کہ جدید معلومات کے ساتھ ان کے قدیم علوم بھی ان میں شامل ہوں۔ اس سے ان کے خاص اور اصل خیالات و حیات جدید تعلیم میں شامل ہوجائیں۔ بالآخر بڑی بحث تمید کے یہ متنازع فیصلہ الفٹنسن تجویز کے مطابق ہو گیا کہ جدید تعلیم کے ساتھ مشرقی علوم کی تعلیم دی جائے گی اور اس فیصلے کے مطابق تعلمی ادارے کھلنے لگے اور اسکولوں اور کالجوں تعداد میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا۔

1844ء میں لارڈ ہارونگ نے حکم جاری کیا کہ سرکاری ملازمت میں وہی لوگ لیے جائیں گے جو انگریزی تعلیم پاچکے ہوں اور سرکاری کاروبار کی زبان بھی انگریزی قرار پائی۔ اس سے ہندوستان میں تیزی سے انگریزی تعلیم کو فروغ ملا۔ جس کی وجہ سے میکالے تجویز کے مطابق تعلیم میں اضافہ ہوا۔ یعنی اس حکم نامہ رو سے میکالے کی تجویز کو تسلیم کر لیا گیا۔

تعلیمی پالیسی کے اجزا

ترمیم

1845ء میں لارڈ ڈہوزی گورنر جنرل کی مجلس نگراں کے صدر چالیس وڈ نے ایک مراسلہ جاری کیا۔ اس میں اعلان کیا گیا کہ اب تک تعلیم اعلیٰ طبقوں تک محدود تھی اور امید کی جاتی تھی کہ سربرآوردہ لوگ اپنے طور پر عوام میں تعلیم پھیلائیں گے۔ یعنی تعلیم اعلیٰ طبقوں سے شروع ہو کر نچلے طبقوں میں پھیلے۔ جب کہ تعلیم کے معاملے میں حکومت پر کروڑوں جفاکش ہندوستانی رعایا کی ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے اور خود حکومت کی خواہش ہے کہ تعلیم ہر طبقہ میں جاری ہو۔ کیوں کہ عوام کی جہالت سے بڑھ کر ملک کے لیے کوئی وبال نہیں۔ مشرقی زبانوں کے بارے میں میکالے کی جو پالیسی تھی اس میں اصلاح کی تجویز دی گئی کہ انگریزی کے ساتھا مقامی زبانوں پر خاص توجہ دینی چاہیے اور جس قدر معمولی تعلیم اس زبان میں ہو سکتی ہے دی جائے۔ یہی مراسلہ آٓگے چل کر ہندوستان کی یونیورسٹیوں کی بنیاد بن گیا۔ اس مراسلہ کے مطابق محکمہ تعلیم قائم کیا گیا اور اس کے عہدہ داروں کا تقرر ہوا کہ ابتدائی اور ثانوی تعلیم کو ترقی دی جائے۔  

طلبہ میں اضافہ

ترمیم

اس زمانے تعلیم تیزی سے پھیلی۔ اگرچہ 1857ء کی بغاوت کی وجہ سے تعلمی پر کم توجہ ہو گئی۔ اس کے باوجود 1882ء تک ہندوستان میں تین یونیوسٹیاں قائم ہو چکی تھیں اور ان میں میٹرک کے کل امیدوار!247 تھی۔ اس لیے جدید تعلیم کی اس کامیابی پر بڑی خوشیاں منائی گئیں۔ سر ہنزی نے کہا کہ سمجھ میں آتا ہے کہ کس پر حیرت کی جائے کہ چند سال میں سنکیڑوں کی بجائے ہزاروں کی تعداد ہو گئی یا طلبہ کا ذوق و شوق جو وہ تعلیم حاصل میں دیکھا رہے ہیں۔ میرا خیال ہے قرون وسطی سے اب تک یورپ کی کسی یونیورسٹی کو یہ کامیابی نصیب نہیں ہوئی اور کلکتہ سے لے کر لاہور تک ہندوستانیوں کے اعلیٰ طبقہ میں شاہد ہی حکومت کی کسی بات میں اس قدر اظہار شوق کیا گیا ہو۔ سر ہنزی کے بیان سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ انگریزوں جدید تعلیم کی ترقی پر فخر تھا۔  

تعلیم کی تنزلی

ترمیم

لیکن انگریزوں کی خوش فہمی جلد ماند پڑ گئی۔ بدقسمتی سے جو کچھ تعلمی ترقی ہوئی وہ طلبہ کی تعداد میں ہوئی نہ کہ تعلمی قابلیت میں اور تعلیمی طریقہ میں کچھ خرابیاں سامنے آئیں اور 1882ء لارڈ لنسڈون نے متنبیٰ کیا کہ جو لوگ جدید تعلم حاصل کر رہے ہیں ان کے ذرائع معاش ملازمتوں اور پیشوں تک محدود ہیں اور یہ بڑی خرابی یہ پیدا ہو رہی ہے کہ زیادہ تر گریجوٹ اس قابل ہی نہیں ہیں کہ وہ ملازمت کرسکیں۔ کیوں کہ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ زیادہ تر طالب علم محض حافظ کل بن گئے ہیں۔ یعنی مطلب کو بغیر سوچے سمھے رٹ لیتے ہیں اور وہ یونیورسٹیوں کی سند حاصل کرلیتے ہیں۔  

1889ء میں لارڈ رپن نے ایک تحقیقاتی کمیشن مقرر کیا جس کے صدر سر ولیم ہند تھے۔ اس کمیٹی نے بہت سے تعلیمی مرکزوں کا معائنہ کیا بہت سے لوگوں پر جرح اور تحقیقات کے بعد ایک اہم رپوٹ مرتب کی۔ اس سب اہم اور ضروری مشورہ یہ تھا کہ حتیٰ الامکان اعلیٰ تعلم کا انتظام سرکار براہ راست اپنے ہاتھ میں نہ رکھے اور اسے مقامی بلدیات اور مقامی جماعتوں کے سپرد کر دے۔ کمیشن کے مشورہ سے جو تبدیلی عمل میں آئی وہ غالباْ بے موقع تھی۔ اس پر طرہ یہ کہ اسکولوں اور کالجوں کے منتظموں یہ اجازت مل گئی کہ وہ چاہیں تو فیس میں تخفیف کر دیں۔ ان سہولتوں کا یہ نتیجہ ہوا کہ طلبہ کی تعداد میں بہت اضافہ ہوا لیکن تعلیم کا معیار بہت گرگیا۔ یہاں تک اس کی شکایت بہت عام ہو گئی۔

محکمہ تعلیم

ترمیم

حکومت ہند میں محکمہ تعلیم قائم ہے اور گورنر جنرل کی کونسل میں ایک ممبر کی نگرانی میں کام کرتا ہے۔ اس کام صوبائی تعلیمی محکموں کی نگرانی ہے۔ اس محکمہ میں میں عہدہ داروں کے تین طبقہ ہیں۔ انڈین ایجوکشنل سروس، پراونشل ایجوکشنل سروس اور سب آڈرنٹ سروس یعنی ماتحت خدمت طبقہ۔ انڈین ایجوکشنل سروس کے عہدہ دار انگلستان سے لیے جاتے ہیں باقی دونوں کے عہدہ دار ہندوستان سے ہییے جاتے ہیں اور اس محکمہ میں بہت سے پروفیسر، انسپکٹر اور اساتذہ کام کرتے ہیں۔ بعرض معاینہ ہر صوبے میں بہت سے حلقے قرار دیے ہیں۔ ہر حلقہ میں ایک انسپکٹر کی نگرانی میں رہتا ہے۔ البتہ یورپین کے لیے ہر صوبہ میں ایک ایک انسپکٹر مقرر ہے۔ انگریزی گورنمٹ اس کا احساس ہے کہ تعلیمی اداروں کار کردگی قابل اطمینان رہے اور اساتذہ کی کار گزاری علم میں رہے۔ اساتذہ کے مشاہرء بہت قلیل ہیں اور اس بنا پر یہ  اندیشہ ہوتا ہے کہ معلم جیسے معزز پیشے میں ذہین اور قابل لوگ جو اس پیشہ کے لیے درکار وہ اس میں شریک ہونا گوارا نہیں کریں گے۔ بعض صوبوں میں حکومت کی طرف سے ثانوی مدرسوں کے ٹرینیگ کالج قائم ہیں۔ یہاں اساتذہ کو طالب علموں کو تعلیم دینا سکھایا جاتا ہے۔

ابتدائی اور ثانوی تعلیم

ترمیم

1883ء میں تعلمی کمیشن نے ابتدائی اور ثانوی تعلیم کے لیے اپنی شفارشات پیش کیں انھیں سر انڈریو فریزیر اس طرح بیان کیا تھا کہ ثانوی اور اعلیٰ تعلیم کے اداروں کے قیام کے لیے بتدیح لوگوں کو دعوت دینی چاہے کہ وہ تعلمی ادارے قائم کریں اور حکومت کے لیے مناسب ہے کہ وہ اس معاملے میں مقابلہ کرنے کی بجائے کنارہ کش ہوجائے۔ بالعموم اس مشورے کے مطابق عمل درآمد ہوا ہے۔ لیکن اس پالیسی کے ساتھ حکومت اس اصول کی پابندی کے ساتھ وہ یہ بھی ضروری سمجھتی ہے کہ تعلیم کے شعبہ میں وہ کچھ تعلیم ادارے اپنی طرف سے قائم رکھے تاکہ نجی تعلیمی اداروں لیے نمونے کا کام دیں اور ان کے ذریعہ تعلیم کا اعلیٰ معیار قائم رہے۔ حکومت کے ضروری ہے وہ تعلیمی اداروں قیام یا ان کے انتظام سے دستبردار ہونے بعد بھی نجی تعلمی اداروں کی نگرانی کے ذریعہ ان کو کنٹرول میں رکھے اور ان تعلیمی اداروں کا معیار تعلیم نہ گرنے پائے۔ سر اندریو فریزر کے مندرجہ بالا بیان کی تصدیق ہوتی ہے کہ اب بہت کم تعلیمی ادارے برائے راست حکومتی سرپرستی میں کام کرتے ہیں۔ ورنہ بیشتر تعلیمی ادرے بلدیات، مقامی تنظیموں، عام لوگوں اور عیسائی انجمنوں کے ہاتھ میں ہیں۔ البتہ انھیں سرکاری امداد ملتی یا مل سکتی ہے۔ پہلے یہ امداد انھیں اچھی کار کردگی پر دی جاتی تھی۔مگر یہ طریقہ نہ تو انگلستان میں اچھا ہے نہ ہندوستان میں۔ اس لیے موجودہ پالیسی یہ ہے کہ اسکول کی حالت کے لحاظ سے مدد دی جاتی ہے اور اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ اساتذہ کی تنخواہوں، عمارتوں اور متفرق سامان میں کس قدر رقم خرچ کی جاتی ہے۔

ثانوی مدارس کی دو قسمیں ہیں انگریزی اور دیسی۔ پہلی قسم کے تعلیمی اداروں میں نچلے درجوں میں انگریزی بطور ایک مضمون کے پڑھائی جاتی ہے اور بڑے درجوں میں وہی ذریعہ تعلیم بن جاتی ہے۔ دوسری قسم کے مدارس میں انگیریزی تعلیم نہیں دی جاتی ہے۔

ثانوی مدارس کی دو قسمیں ہیں مڈل اور ہائی اسکول۔ مڈل میں بچوں کو ثانوی نصٓاب کے ابتدائی مدارج کی تعلیم دی جاتی ہے اور ہائی اسکولوں میں میٹرک یا اسکول کے فائنل امتحان کے لیے تیار ہوتے تھے۔ چونکہ بمبئی اور مدارس کے صوبوں میں دیسی زبانوں کے ہائی اسکول موجود نہیں ہیں اس لیے دیسی مڈل اسکول بھی پرائمری اسکول میں شمار ہوتے ہیں اور وہاں سے طلبہ ورنکلر فائنل امتحان پاس کرکے نکلتے ہیں۔ اندازہً بچے پانچ یا چھ سال کسی ابتدائی اسکول میں پڑھے ہیں اور اس کے بعد اس کی رسائی مڈل یا ہائی اسکول میں ہوتی ہے۔ ہوشیار لڑکے تو سولہ سال کی عمر میں میٹرک کرلیتے ہیں، لیکن عموماً عام طالب علموں کو ایک یا دو سال مزید لگتے ہیں۔ میٹرک کے امیدواروں کی تعداد بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ اس کا نصاب تعلیم ہرگز ان طلبہ کے مناسب نہیں ہے جو بعد میں آگے تعلیم نہیں حاصل کرتے ہیں۔ اسی بنا پر بعض اسکولوں میں فائنل امتحان میں زیادہ علمی اور عملی تعلیم دی جاتی ہے کہ ان میں زندگی کے کاروباری معملات میں شریک ہونے کی قابلیت ہوجائے۔ بعض صوبوں مثلاً بمبئی میں سرکاری ملازمت کے لیے اسکول کے فائنل امتحان کی کی کامیابی ضروری سمجھی جاتی ہے۔

یونیورسٹیاں اور اعلیٰ تعلیم

ترمیم

1901ء میں لارڈ کرزن وائس رائے نے تمام تر کوشش تعلیمی اصلاحات پر صرف کیں اور ایک تعلمی مشیر کا تقرر کیا گیا جو ڈایرکٹر جنزل یا صدر ناظم تعلیمات کہلاتا ہے۔ اس دوران ایک تحقیقاتی کمیشن نے ہندوستان کا دورہ کیا اور ہندوستان کی یونیورسٹیوں کی حالت اور ان کی ضروریات کے معلق ایک جامع رپوٹ تیار کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ1904ء میں یونیورسٹی کا قانون منظور کیا۔ 1911ء میں تعلیمی ضروریات اس قدر بڑھ گئیں کہ گورنر جنرل کی کونسل میں ایک ممبر تعلیم کا اضافہ کیا گیا۔ ہندوستانی یونیورسٹیاں سرکاری حکومت کے حکم نامے کی رو سے قائم ہوئیں تھیں۔ اس لیے ان میں کسی اصلاح کی ضرورت پیش آئے تو پہلے اس میں قانون میں ترمیں کرنا ضروری تھا۔

اس قانون کے یونی ورسٹی کا آزادانہ کام کرتی ہے۔ البتہ ناظم تعلیمات ہر جگہ سنڈیکٹ اور سنٹ کا سرکاری ممبر شمار ہوتا ہے۔ نیز بہت سے پروفیسر سنٹ اور سنڈیکٹ میں شریک رہتے ہیں۔ کلکتہ یونیورسٹی میں گورنر جنرل چانسلر ہوتا تھا اور باقی یونیورسٹیوں میں صوبہ کا اعلیٰ حاکم یعنی گورنر یا لفنٹ گورنر چانسلر ہوتا تھا۔ یونیوسٹیوں کی انتظامی جماعت سنڈیکٹ کہلاتی تھی اور اس کا صدر وائس چانسلر ہوتا تھا جس کو حکومت نامزد کرتی تھی۔ ناظم تعلیمات سرکاری ممبر ہوتا تھا اور اس کے زیادہ تر ممبر حکومت نامزد کرتی تھی۔ کچھ گریجویٹوں اور اساتذہ کی جماعتوں کی طرف سے منتخب ہوتے تھے۔ رجسٹرار کو سینٹ مقرر کرتی تھی۔ اس کا کام یہ تھا کہ وہ سینٹ اور سنڈیکٹ کے اجلاس کی روداد مرتب کرے اور یونیورسٹی کا کل کام بھی اس کی ذہمہ داری تھی۔ اس کے علاوہ کچھ کمیٹیاں قائم کی گئیں ہیں جو نصابی کتب کا تعین کرتی ہیں اور درس و تدریس کی نگرانی کرتی تھیں۔ سینٹ یونی ورسٹی کے متعلق کسی بھی قانون کو وضع کرسکتی تھی مگر چانسلر ان قوانین منسوخ کرنے کا اختیار تھا۔ گذشتہ صدی کی ابتدا میں یونیورسٹی کی تنظیم میں کچھ نقص پیدا ہو گئے۔ خاص کر سینٹ کے ممبروں کی تعداد اس قدر زیادہ بڑھ گئی کہ انھیں سنبھالنا مشکل ہو گیا۔ مثلا بمبئی یونیورسٹی میں سینٹ کے ممبروں کی تعداد تین سو دس ہو گئی تھی۔ اس کے نتیجہ میں یونیورسٹیاں جدید تعلمی جدتوں کا ساتھ نہ دے سکیں اور ضروری اصلاحاتوں میں بھی تاخیر ہونے لگیں۔

1904ء میں یونیورسٹی قانون میں کچھ تبدیلیاں کی گئیں اور ہر یونیورسٹی میں سینٹ کے ممبروں کی تعداد زیادہ سے زیادہ سو مقرر کی گئی اور ایسا طریقہ کار وضع کیا گیا کہ سنڈیکٹ کی ممبروں میں زیادہ تعداد ان لوگوں پر مشتمل ہو جو تعلمی سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہوں۔ البتہ بنارس اور میسور کی یونی ورسٹیوں میں طریقہ کار قدر مختلف تھا۔ یونیورسٹیوں کے قانون میں ان کالجوں کو بھی نظر میں رکھا گیا جو یونیورسٹیوں سے ملحق ہیں اور ان میں سے اکثر قدر ناقص حالت میں تھے۔ اس سے پہلے یونیورسٹی کا کام تھا کہ وہ کالجوں کے امتحان لے، اس نے ہر امتحان کا ایک معیار مقرر کر دیا تھا اور اس سے زیادہ وہ کالجوں کے معمالات میں دخل نہیں دے سکتی تھی۔ لیکن نئے قانون کے تحت یونیورسٹی کو اجازت دی گئی کہ وہ ملحقہ کالجوں کا معاینہ کرے اور ان میں اصلاحات کرے۔ اس سے یونیورسٹی کو ان کالجوں میں بھی اصلاح کرنے موقع مل گیا۔ اب ایسے قرائن نظر آنے لگے کہ اب یونیورسٹی دوسرے کام اور فرائض بھی اپنے زمہ لے لے گی۔ لارڈ ہارڈنگ کا کہنا تھا کہ محض امتحان لینا یونیوسٹی کا کام نہیں ہے اور اس سے ترقی پزیر ہندوستان کا کام چل نہیں سکتا ہے۔ چنانچہ ڈحاکہ میں ایک درسی یونیوورسٹی قائم کی گئی۔ ہندوستان کی مختلف یونیورسٹیوں کے درسی نصاب میں کچھ اختلافات تو ضرور ہیں لیکن سب کے اصول یکساں ہیں۔ علوم اور سائنس میں وہی چار سال کا نصاب ہے۔ درمیان میں امتحان ہوتا ہے، جس کو انٹر میڈیٹ یا ایف اے کا امتحان کہتے ہیں۔ چار سال کے آخر میں بی اے کا امتحان ہوتا ہے۔ آنرز یعنی امتیازی امتحان کے قواعد مختلف ہیں۔ کلکتہ میں امیتازی اور معمولی امتحانوں کے نصاب جدا جدا ہیں۔ بمبئی میں امتیازی امتحان کے اگلے سال امتیازی نصاب پڑھنا پڑتا ہے۔ بی اے کی سند حاصل کرنے کے بعد ایک یا دو سال بعد ایم اے کا امتحان دینا پڑتا ہے۔ مدراس میں امتیازی امتحان قریب قریب ایم اے کے برابر تصور ہوتا ہے۔

پیشہ ورانہ تعلیم

ترمیم

تعلیم کا یہی قاعدہ سائنسی اور پیشہ ورانہ تعلیم میں رائج تھے۔ سائنس میں انٹر میڈیٹ یا ایف ایس سی اور بی ایس سی کہلاتے ہیں۔ بی ایل یا ایل ایل بی کی سند صرف گریجیٹوں ملی سکتی ہے۔ اس کے علاوہ اور کئی طرح کے نصاب رائج ہیں مثلاً زراعت، طب اور انجینری کی بھی تعلیم دی جاتی ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ طالب علم دو سال تک کسی کالج کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ان کالجوں میں داخلا لے سکتا ہے۔ کچھ عرصہ میں ہی صنعتی تعلیم کے انسٹی ٹیوٹوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ اگرچہ ان انسٹی ٹیوٹوں میں صنعتی تعلیم اعلیٰ پیمانے کی نہیں ہوتی ہے۔ ان میں کچھ ادارے حکومت کے زیر اہتمام چلتے ہیں اور کچھ کا انتظام نجی ادارے چلاتے ہیں۔ ان صنعتی کالجوں میں سب زیادہ اہمیت کا حامل وکٹوریہ ٹیکنکل انسٹی ٹیوٹ ہے جو ملکہ وکٹوریہ کی جوبلی کی یادگا پر قائم ہوا تھا۔ ٹاٹا نے ایک انسٹی ٹیوٹ آف سائنس بنگلور میں قائم ہوا۔ اس میں بی اے کے بعد درس اور تحقیق کا موقع ملتا ہے۔ سرکار کی طرف سے مدراس اور لاہور میں صنعت و حرفت کے اسکول قائم ہیں۔ ان میں طلبہ کو نہ صرف نقاشی، سنگ تراشی اور معماری کے فنون کے علاوہ دوسرے فنون اور پیشوں کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ مثلاً کوزہ گری، آہن گری، جوبی کندہ کاری، مینا کاری طلائی اور نقری کام کی بھی تعلیم دی جاتی ہے۔ انجینرنگ کے کالج بھی موجود ہیں۔ ان میں سب سے مشہور ٹامس کالج رڑکی ہے۔ جو اپنے بانی سے مشہور ہے جو لفتنٹ گورنر ٹامس نے 1884ء میں قائم کیا تھا۔ اس کے علاوہ ایسے دوسرے کالج بھی قائم کیے گئے۔ مثلاً بنگال میں سبپور کالج، پونا میں کالج آف سائنس انجینئری۔ مدارس میں طلبہ کو یا تو نجی کارخانوں میں تربیت دی جاتی ہے یا محکمہ تعمیرات میں ایک محکمہ کار آموزی کا اور ایک کلاس دستکاری کی بھی موجود ہے۔ جس میں زیادہ تر عملی تعلیم دی جاتی ہے۔ دیرہ دون میں جنگلات کا اسکول قائم کیا گیا جہاں جنگلات کے علاوہ زراعت کی تعلیم دی جاتی ہے۔ بہار میں پوسہ میں ایک عظیم انشان کالج قائم کیا گیا جہاں خاص کر زراعت کی تعلیم اور تحقیقات ہوتی ہے۔ تجارتی تعلیم کی طرف توجہ دی گئی۔ چنانچہ اسکول کے فائنل امتحان میں کھاتہ نویسی اور خط کتابت جیسے کاروباری و تجارتی مضمون نصاب میں داخل ہیں۔ طبی اسکول اور کالج بھی قائم کیے گئے جن میں بہت سے طلبہ طبعی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ یہ کالج مختلف یونیورسٹیوں کے تحت طبی تعلیم دیتے ہیں اور بڑے بڑے شفا خانوں میں خود طبی کالج کے پروفیسر طلبہ کو جراحی کا کام سکھاتے ہیں۔۔ طبعی کالجوں میں بھی طرح طرح کی اصلاحات ہوئیں۔ طبی نگرانوں و دیگر منتظمین کا خیال ہے خاص کر کلکتہ اور عام طور پر دوسرے مقامات کے طبی کالجوں میں طلبہ کی صحت اور اخلاق پر اس کا بڑا اثر پڑتا ہے۔ کلکتہ میں یونیورسٹی کی طرف سے طلبہ کا معائنہ ہوتا رہتا ہے اور ہندوستان بھر میں سرکاری اور سرکاری انجمنوں کی طرف سے عمدہ عمدہ طبعی شفاخانے قئم ہو رہے ہیں۔

مذہبی تعلیم

ترمیم

انگریزی حکومت کی پالیسی تھی کہ وہ مذہبی معملات میں دخل نہ دے اس لیے حکومت زیر اہتمام چلنے والے کالجوں میں کسی قسم کی مذہبی تعلیم نہیں دی جاتی ہے۔ البتہ نجی کالجوں میں مذہبی تعلیم کی کوئی ممانیت نہیں ہے۔ سر ولنٹائن جرول کا کہنا ہے کہ مذہب بغیر ایک طرح کی ناقص تعلیم بے احتیاطی سے پھیل رہی ہے جو نہ کہ ذہانت پر مبنی ہے نہ اس میں کوئی اخلاقی اور مذہبی خوبی ہے۔ یہ بہت اہم اور غور طلب رائے ہے اور اس دوسرے اہل علم نے بھی اس کی تصدیق کی ہے۔ لیکن اس معاملے میں حکومت بالکل لاپروہ نہیں ہے۔ بہت سے کالجوں میں عیسایت کی تعلیم دی جاتی ہے۔ سرسید نے علی گڑھ میں ایک کالج قائم کیا ہے جہاں مسلمانوں کو دینی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ ہندوؤں کی بنارس یونیورسٹی موجود ہے جس کا سنگ بنیاد 1916ء میں سنگ بیاد رکھا گیا جہاں مذہبی تعلیم دی جاتی ہے ۔

تعلیم نسواں

ترمیم

اب تک حکومت نے تعلیم نسواں میں زیادہ مدد دی نہیں۔ حالانکہ1882ء کے کمیشن نے سفارش کی تھی کہ لڑکیوں کی تعلیم حکومت کی خاص توجہ اور فیاضی کی مستحق ہے۔ لیکن انگریزی حکومت نے اس میدان میں اصلاح کا بیڑا اٹھایا تو اسے طرح طرح کی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اول تو استانیاں کم ملتی ہیں ادر دوسرے بقول سر جان اسٹریچی کہ ہندوستان میں جو مختصر جماعت مغربی خیالات کے زیر اثر ہے ان کو بھی یہ بات عجیب لگتی ہے کہ لڑکیاں اسکولوں میں لڑکوں کی طرح تعلیم پائیں۔ تاہم کچھ سالوں میں کچھ نہ کچھ تعلیم پھیل رہی ہے اور لڑکیوں کے ابتدائی اور ثانوی اسکولوں کی بنیادیں رکھ دی گئیں ہیں اور کہیں کہیں لڑکیاں لڑکوں کے پہلو بہ پہلو یونیورسٹی کی سند کے لیے تعلیم حاصل کرہی ہیں۔ کیا لڑکے اور لڑکیوں کا ساتھ ساتھ پرھانا چاہیے؟ جیسا کہ یورپ وغیرہ میں رواج ہے۔ ہندوستان کے موجودہ حال میں یہ بحث غیر ضروری ہے۔ لیکن عام رجحان یہ ہے کہ لڑکیوں کے لیے جداگانا کالج قائم ہوں۔ چنانچہ مدارس میں ایسے دو کالج پہلے سے موجود ہیں اور کالج کلکتہ میں بمنئی میں الگزنڈار نیٹو گرلز انگش انسٹی ٹیوشن ایک مشہور کالج ہے۔ جو بہ یادگار ملک معظم ایڈور ہفتم 1863ء میں قائم ہوا تھا۔ لیڈی ہارڈنگ کی یاد میں ایک زنانہ کالج دہلی میں ہو رہا ہے۔ جس کہ لیے لوگوں نے دل کھولکر چندہ دیا ہے ۔

یورپینوں کی تعلیم

ترمیم

جن یورپی لوگوں نے ہندوستان میں بود و باش اختیار کرلی ہے ان کے اور نیز یورشین لوگوں کے بچوں خاص کر لڑکیوں کو تعلیم بہت دقت پیش آرہیں ہیں۔ جب سے ہندوستان میں تعلیم کی حالت بہتر ہونی شروع ہوئی اور جن عہدوں کے لیے انگریزی کی شرط تھی یورپین لڑکوں کے لیے مخصوص نہیں رہیں۔ مزید براں وہ اپنی اعلیٰ طرز معاشرت کی وجہ سے اپنے ہم لیاقت ہندوستانی کے مقابل زیادہ تنخواہ کے طالب ہوتے ہیں۔ لارڈ کرزن کا کہنا ہے کہ ہر وائسرائے نے اس مسلہ پر غور کیا مگر باوجود ہمدردی کے کچھ نہیں کرسکا۔ تاہم اس بارے میں بہت کچھ کنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ہر صوبہ میں یورپین اسکولوں کے لیے ایک ایک انسپکٹر مقرر ہوا ہے، جو اپنے تحت کے کل مدارس میں سرکاری امداد تقسیم کرتا ہے اور تعلیم کو ترقی دینے کی کوشش کرتا ہے۔ اکثر صوبوں میں یورپین اسکولوں میں فائنل امتحان ہوتا اور بعض صورتوں میں یہ میٹرک کا ہم پلہ مانا جاتا ہے۔ بعض اسکولوں میں کیمرج لوکل امتحان کی تیاری ہوتی ہے۔ لیکن مختلف طرح امتحانات ایک بڑی خرابی تصور کیے جاتے ہیں۔ یورپین لوگوں کے لیے تعلیم کو ہندوستان میں ترقی دینے کی غرض سے ایک صاحب نے 1911ء نے ایک بڑا عطیہ دیا تھا اور اس سلسلے میں ہندوستان اور ولایت میں عوام سے بھی چندہ اور امداد کی استدعا کی گئی تھی۔

تعلیمی وضائف

ترمیم

وظائف کا بھی ایک طریقہ کار ہے، جس کے مطابق ذہین طلبہ ابتدائی تعلیم سے لے کر کالج تک وظیفہ پاسکتے ہیں۔ حتیٰ کہ وہ گریجوٹ ہوجائیں، نیر حکومت، یونیورسٹیوں اور عام انجمنوں کے پاس ایسی رقوم موجود ہیں جن سے طلبہ کو ولایت تک کی تعلیم کے لیے وظیفہ دیا جاتا ہے۔ دفتر ہند میں ایک خاص ڈیسک اس کام کے لیے قائم کیا گیا ہے جو ہندوستانی طلبہ کو ولایت میں تعلیم کے لیے ضروری معلومات اور مشورے دیتا ہے۔

تعلیمی مصارف

ترمیم

حکومت کے تعلیمی مصارف میں برابر اضافہ ہو رہا ہے۔ اس صدی شروع سال میں تعلمی مصارف پانچ لاکھ چھتر ہزار پونڈ تھی جو 1913ء۔ 1914ء میں بڑھ کر چوبیس لاکھ چھتیس ہزار نو سو پونڈ ہو گئے ہیں اور مزید اضافہ اس میں ناگریز ہے۔ بلدیات اور مقامی انجمنیں جو روپیہ صرف کرتی ہیں وہ اس رقم کے علاوہ ہے۔ تعلیمی مالیہ کا طریقہ ہر صوبہ میں جدا جدا ہے۔ بنگال میں عام طور پر نجی تعلمی ادارے قائم ہیں۔ انھیں طلبہ کی فیس کے علاوہ سرکاری امداد بھی ملتی ہے۔

خلاصہ

ترمیم

ہم جب بڑصغیر میں تعلمی ادوار کا طائرانہ مطالعہ کریں تو ہم پر عیاں ہوتا ہے کہ ابتدائی ادوار 1782ء میں شروع ہوا تھا اور 1818ء تک جاری رہا۔ اس دور میں کمپنی کی حکومت نے مشرقی طرز تعلیم کو فروغ دیا۔  

دوسرا دور 1818ء سے شروع ہوا اور 1854ء تک جاری رہا۔ اس دور میں ہندوستان میں جدید اور انگلش کی تعلیم دینے کا فیصلہ ہوا اور اس بارے میں بہت سے اہم فیصلے ہوئے جو ہندوستان میں آئندہ جدید تعلم کے لیے اہم ثابت ہوئے۔

تیسرا دور 1854ء سے شروع ہوا اور 1901ء تک جاری رہا۔ یہ دور بہت اہم ہے اس دور میں ہندوستان میں جدید تعلیم تیزی سے پھیلی اور اسی دور میں ہندوستان میں یونی ورسٹیوں کی بنیاد رکھیں گئیں۔

چوتھا دور 1901ء سے شروع ہو اور یہ آزادی تک جاری رہا۔ یہ دور تعلیمی اصلاحات اور ترامیں کا دور رہا اور اس دور میں تعلیم میں مزید تیزی آئی۔

بطانوی عہد حکومت۔ مولوی ذکاء اللہ

برطانوی حکومت ہند۔ انڈیسن

ہند کے سیاسی مسلک کی نشو و نما۔ جے انڈریسن، جے صوبہ دار