اصحاب القریہ یا بستی والے قرآن میں ایک قوم کو کہا گيا ہے۔ اس بستی سے مراد مفسرین کے مطابق انطاکیہ ہے۔[1] جن کی طرف پیغمبر یا عیسی علیہ السلام کے حواری بھیجے گئے،مگر اس بستی والوں نے ان کو جھٹلایا اس پر مزید ایک اور پیغمبر ان پیغمبروں کی تصدیق کے لیے بھیجا گیا مگر وہ لوگ تب بھی نہ مانے۔

آیت و تفسیر

ترمیم

قرآنی آیت کا ترجمہ

اور ان سے نشانیاں بیان کرو، اس شہر والوں کی، جب ان کے پاس فرستادہ آئے(13)۔جب ہم نے ان کی طرف دو بھیجے پھر انھوں نے ان کو جھٹلایا تو ہم نے تیسرے سے زور دیا، اب ان سب نے کہا بے شک ہم تمہاری طرف بھیجے گئے ہیں (14)۔بولے تم تو نہیں مگر ہم جیسے (ہی) آدمی (ہو)اور رحمن نے کچھ نہیں اتارا، تم نرے جھوٹے ہو(15)۔

[2]

اس بستی کے تعین میں بہت اختلاف ہے اسی طرح جن پیغمبروں کا ذکر ہے ان کی حیثیت کے بارے بھی اختلاف ہے کہ آیا وہ اللہ کے نبی تھے یا صرف حضرت عیسی کے حواری، قرآن میں ان کا نام ذکر نہیں کیا گیا، علامہ ابن کثیر کے نزدیک یہ حضرت عیسی علیہ السلام کے پہلے کے نبی ہیں کیونکہ قرآن ارسلنا کہہ رہا ہے، عیسی کے بعد کوئی نبی نہیں آیا سوائے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے۔ ان پیغمبروں کا یہ کہنا کہ "ہم یقینا" خدا کے فرستادہ ہیں " ظاہر کرتا ہے کہ ان کو عیسی علیہ السلام نے نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے وہ آئے تھے۔[3] بستی کون سی تھی، کیونکہ قرآن میں بستی کا نام نہیں بلکہ ان کو "بستی والے " جیسے عام الفاظ سے یاد کیا گيا ہے، اس لیے بستی کا تعین بھی اپنی اپنی سمجھ کے مطابق کرنے کی کوشش کی گئی، اکثر اہل علم اس کو انطاکیہ کہتے ہیں، یہ تبھی مانا جا سکتا ہے جب یہ مان لیا جائے کہ وہ حضرت عیسی علیہ السلامکے حواری نہیں بلکہ ان سے پہلے گذرے پیغمبر ہیں، کیونکہ انطاکیہ کے بارے تاریخی طور پر ثابت ہے کہ یہ لوگ حضرت عیسی علیہ السلام پر ایک ساتھ (تمام شہر) ایمان لائے تھے۔[4]

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. تفسیر نورالعرفان، صفحہ704
  2. سورۃ یسین آیت 13 تا 15
  3. تفسیر ابن کثیر، جلد 1، صفحہ 229،30
  4. حفظ الرحمن سیوہاروی، قصص القرآن، جلد3، صفحہ 26 تا 29