بلاغت

کسی کو راغِب کرنے کا ایک ہنر

بلاغت (انگریزی: Rheotric) کسی کو راغِب کرنے کا ایک ہنر ہے۔ یہ مکالمے کے تین قدیم فنون (علوم ثلاثہ) میں سے ایک ہے، جس میں قواعدِ اور منطق/جدلیات بھی شامل ہیں۔ ایک تعلیمی شعبے کے طور پر، بلاغت کا مقصد وہ تکنیکیں مطالعہ کرنا ہے جو مقررین یا مصنفین اپنے سامعین کو آگاہ کرنے، راغِب کرنے اور متحرک کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔[1] بلاغت مخصوص حالات کے لیے دلائل کو سمجھنے، دریافت کرنے اور ان کی تیاری کے لیے رہنمائی بھی فراہم کرتا ہے۔

مزید اس کی تعریف یوں کی گئی ہے کہ ایسا کلام جس میں مخاطب کے سامنے وہی نکات بیان کیے جائیں جو اسے پسند ہوں۔ جو اس کو ناگوار محسوس ہوتے ہوں ان کو حذف کر دیا گیا ہو۔ زیادہ اہم باتوں کو پہلے بیان کیا گیا ہو اور کم اہمیت رکھنے والی باتوں کو بعد میں، نیز غیر ضروری باتوں کو نظر انداز کر دیا گیا ہو۔

فصاحت عربی لفظ ہے جس کے لغوی معنی ظاہر اور صاف ہونے کے ہیں۔ عربی زبان میں کہتے ہیں فَصَحَ الصبحُ=صبح ظاہر ہوئی۔ اَفْصَحَ الاَمرُ= معاملہ واضح ہو گیا۔ افصح اللبنُ=دودھ بے جھاگ ہو گیا۔

علمائے ادب نے فصاحت کی یہ تعریف کی ہے کہ لفظ میں جو حروف آئیں ان میں تنافر نہ ہو، الفاظ نامانوس نہ ہوں، قواعدِ صرفی کے خلاف نہ ہو۔ علم بیان کی اصطلاح میں ایسا کلام جو مقام اور حال کے مطابق ہو۔ کلام بلیغ میں فصاحت کا ہونا لازمی ہے، لیکن فصاحت کے لیے بلاغت لازمی نہیں ہے۔ گویا فصاحت اور بلاغت کے درمیان عموم و خصوص مطلق کی نسبت پائی جاتی ہے۔

حوالہ جات

ترمیم
    • E. P. J. Corbett (1990)۔ Classical rhetoric for the modern student۔ New York: اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس۔ ص 1
    • R. E. Young؛ A. L. Becker؛ K. L. Pike (1970)۔ Rhetoric: discovery and change۔ New York: Harcourt Brace & World۔ ص 1