بلبل چوہدری پاکستان کے مشہور رقاص بلبل چوہدری کا اصل نام رشید احمد چوہدری تھا۔ ان کا تعلق چٹاگانگ کے ایک قصبہ چناتی سے تھا مگر ان کی پیدائش 1919ء میں بوگرا میں ہوئی تھی جہاں ان دنوں ان کے والد عزم اللہ چوہدری بطور پولیس انسپکٹر تعینات تھے۔ بلبل چوہدری کو بچپن ہی سے فنون لطیفہ سے گہرا شغف تھا۔ شروع شروع میں وہ مصوری کی طرف مائل تھے مگر جلد ہی وہ رقص کی دنیا میں آگئے۔ انھوں نے اپنے اسکول کے ایام میں ہی اسٹیج پر رقص کے مظاہرے شروع کردیے تھے۔ کالج کے دنوںمیں انھوں نے اورینٹل فائن آرٹس ایسوسی ایشن قائم کی۔ وہ اس تنظیم کے سیکرٹری تھے۔ انہی دنوں انھوں نے ہندوستان کی مشہور تھیٹر تنظیم انڈین پیپلز تھیٹریکل ایسوسی ایشن میں شمولیت اختیار کی۔ اس تنظیم میں شامل ہونے کے بعد انھوں نے کئی بیلے ترتیب دیے جن کی شہرت یورپ اور امریکا تک جا پہنچی۔ 1943ء میں انھوں نے کلکتہ میں اپنی ایک ہندو ساتھی رقاصہ پرویتوا مودک سے شادی کرلی جس نے اسلام قبول کرکے اپنا نام افروزہ بلبل رکھ لیا۔ قیام پاکستان کے بعد بلبل چوہدری اپنی بیوی کے ہمراہ پاکستان آگئے۔ انھوں نے پاکستان کے دونوں حصوںمیں اپنے ٹروپے کے ساتھ رقص کے مظاہرے پیش کیے جنہیں بے انتہا داد ملی۔ 1950ء میں جب شہنشاہ ایران پاکستان آئے تو بلبل چوہدری نے ان کے سامنے کلام حافظ پر مبنی ایک بیلے پیش کیا‘ اس بیلے کو بے حد پسند کیا گیا۔ بلبل چوہدری اپنا ٹروپے لے کر یورپ بھی گئے جہاں انھوں نے ڈبلن‘ لندن‘ پیرس‘ برسلز اور دی ہیگ میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ انھیں امریکا آنے کی دعوت بھی ملی تھی مگر موت نے انھیں وہاںجانے کی مہلت نہ دی۔ بلبل چوہدری کو لکھنے لکھانے سے بھی شغف تھا۔ ان کا ایک ناول ’’پراچی‘‘ اور کئی مختصرکہانیاں بھی شائع ہو چکی تھیں۔ بلبل چوہدری نے 17 مئی1954ء کی صبح کلکتہ کے چترنجن کینسر ہسپتال میں وفات پائی۔ 23مارچ 1959ء کو ان کے انتقال کے پانچ برس بعد صدر پاکستان نے ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر انھیں صدارتی تمغا برائے حسن کارکردگی سے نوازا تھا، [1]

حوالہ جات

ترمیم
  1. "آرکائیو کاپی"۔ 02 اکتوبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 دسمبر 2019 

حوالہ جات