بلیہ: اسلام سے پہلے عرب اس اونٹنی یا گھوڑی کو کہتے جو مرنے والے کی قبر کے قریب راوج کے مطابق باندھ دیتے اس کا منہ پیچھے کی طرف موڑ دیتے اور اسے زین پوش سے ڈھک دیتے

مرنے کے لیے چھوڑ دیتے ترمیم

بلیہ کو ایسے ہی چھوڑ دیتے تا وقتیکہ کہ وہ فاقوں سے مر جاتی بعد میں اسے جلا دیتے اور کبھی اس کی کھال میں ثمام گھاس بھر دیتے

حیات بعد الممات کا تصور ترمیم

یہ رواج عربوں کے حیات بعد الموت کا اظہار تھا کیونکہ اس سے مراد یہ لیا جاتا تھا کہ بلیہ (قربان ہونے والا )قیامت کے دن جانوراپنے مالک کی سواری بنے گا اور جو لوگ بغیر بلیہ کے اٹھیں گے ان کا درجہ کمتر ہو گا کیونکہ انھیں پیدل چلنا ہو گا

بلیہ گائے اور بھیڑ ترمیم

ایک روایت کے مطابق یہی نام گائے اونٹنی اور بھیڑ کو بھی دیا جاتا تھا جو مرنے والی کی قبر پر کونچیں کاٹ کر مرنے والے کی قبر پر مرنے کے لیے چھوڑ دی جاتیں گویا قیامت کے متعلق زمانہ جاہلیت کا یہ تصور تھا۔[1]

حوالہ جات ترمیم

  1. دائرہ معارف اسلامیہ جلد 4صفحہ985 جامعہ پنجاب لاہور