مؤحّدون کے بعد ملک میں چھانے والی طوائفُ الملوکی کے دوران اندلس کی حدُود تیزی سے سمٹنے لگیں اور بہت سی مسلم ریاستیں یکے بعد دِیگرے مسیحی مقبوضات میں شامل ہوتی چلی گئیں۔ حتیٰ کہ خاندانِ بنو نصر(دورِ بنونصر (غرناطہ) 1232ء تا 2 جنوری 1492ء) کے آغاز سے قبل اِسلامی سپین محض 700 میل کے لگ بھگ رقبے پر مشتمل رہ گیا، جس میں غرناطہ، المریہ، مالقہ، قادِس، بیضاء اور جیان (Jaen) کے مشہور شہر شامل تھے۔

سیاسی اہمیت ترمیم

غرناطہ کا خاندانِ بنو نصر جس نے 1232ء سے 1492ء تک 260 سال حکومت کی، تاریخِ اندلس میں ایک خاص مقام رکھتا ہے۔ اُس خاندان نے اِتنے طوِیل عرصے تک اپنے محدُود ریاستی وسائل کے باوُجود یورپ بھر کی اِجتماعی یلغار کو روکے رکھا۔ 1423ء میں صحیح معنوں میں ریاست کے زوال کا آغاز ہوا جو بالآخر 2 جنوری 1492ء کے تاریخی دِن اپنے اِنجام کو جاپہنچا۔

مسیحی قابضین نے غرناطہ کے مسلمان عوام کے ساتھ کیے گئے جان، مال، عزت و آبرو اور مذہبی آزادی کے وعدے کے برخلاف اُن پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے اور انھیں تبدیلی مذہب یا جلاوطنی میں سے ایک پر مجبور کیا گیا۔ جس کے نتیجہ میں سپین سے مکمل طور پر مسلمانوں کا خاتمہ ہو گیا۔

علمی و تمدنی اہمیت ترمیم

سقوطِ قرطبہ کے بعد جب ’بنو نصر‘ غرناطہ کی ریاست کے حکمران ہوئے تو اُن کے دَور میں بھی علم و فن نے خوب ترقی کی۔ انھوں نے غرناطہ میں اعلیٰ تعلیم کے لیے ایک عظیم یونیورسٹی قائم کی جس میں مذہبی علوم کے ساتھ ساتھ تاریخ و اَدب کے علاوہ سائنسی علوم کی تدریس کا بھی خاطر خواہ اِنتظام کیا گیا تھا۔ مرکزی یونیورسٹی کے علاوہ شہر میں سینکڑوں اسکول اور کالج بھی تھے جو اِبتدائی اور ثانوی تعلیم کی تروِیج میں مصروف تھے۔ شہر میں 70 بڑی لائبریریاں تھیں۔ سیاسی عدم اِستحکام اور صلیبی شورشوں کے باوُجود غرناطہ اُن دِنوں سپین کا سب سے بڑا علمی شہر بن کر اُبھرا تھا۔[1]

حوالہ جات ترمیم