بنو نضیر
بنو نضیر، یہود کا بہت بڑا قبیلہ تھا جو مسجد قباکے قریب عوالی کی طرف آباد تھا۔اپنا آبائی وطن چھوڑا اور مدینہ کے جنوب مشرق میں وادیٔ بطحان کے پاس آکرآباد ہوا، یہ مدینہ کی سب سے بڑی وادی تھی، [1] غزوہ احد کے بعد یہ لوگ علی الاعلان مسلمانوں کی مخالفت کرنے لگے تھے اور انھوں نے آنحضرت ﷺ سے کیا ہوا وہ معاہدہ توڑ دیا، جو آپ نے ہجرت کے بعد ان سے کیا تھا یہود کے دو قبائل بنو نضیر اور بنو قریظہ مدینہ سے دو میل باہر نسبتاً کم درجے کی زمین پر رہائش پزیر تھے۔ لیکن وہاں انھوں نے باغات بھی بسا لیے تھے اور اپنے لیے نہایت محفوظ قلعے اور گڑھیاں بھی بنا لی تھیں اور ساتھ ہی ساتھ حجاز کے غلے کی درآمد اور چھوہاروں کی برآمد اپنے قبضے میں لے لی تھی۔ مرغ بانی اور ماہی گیری پر بھی زیادہ تر انھیں کا قبضہ تھا۔ قبیلہ بنو نضیر نے جب آنحضرت ﷺ معاہدے کی کچھ شرائط پر عمل کرانے کے لیے ان کے پاس تشریف لے گئے تو ان لوگوں نے یہ سازش کی کہ جب آپ بات چیت کرنے کے لیے بیٹھیں تو ایک شخص اوپر سے آپ پر ایک چٹان گرادے، اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے آپ کو ان کی اس سازش سے باخبر فرمادیا اور آپ وہاں سے اٹھ کر چلے آئے، اس واقعے کے بعد آپ نے بنو نضیر کے پاس پیغام بھیجا کہ اب آپ لوگوں کے ساتھ ہمارا معاہدہ ختم ہو گیا ہے اور ہم آپ کے لیے ایک مدت مقرر کرتے ہیں کہ اس مدت کے اندر اندر آپ مدینہ منورہ چھوڑ کر کہیں چلے جائیں، ورنہ مسلمان آپ پر حملہ کرنے کے لیے آزاد ہوں گے، کچھ منافقین نے بنو نضیر کو جاکر یقین دلایا کہ آپ لوگ ڈٹے رہیں، اگر مسلمانوں نے حملہ کیا تو ہم آپ کا ساتھ دیں گے ؛ چنانچہ بنو نضیر مقررہ مدت میں مدینہ منورہ سے نہیں گئے، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مدت گزرنے کے بعد ان کے قلعے کا محاصرہ کر لیا اور منافقین نے ان کی کوئی مدد نہیں کی، آخر کار ان لوگوں نے ہتھیا ڈال دیے اور آنحضرت ﷺ نے ان کو 4ھ میں مدینہ منورہ سے جلاوطن کرنے کا حکم دیا، البتہ یہ اجازت دی کہ ہتھیاروں کے سوا وہ اپنا سارا مال ودولت اپنے ساتھ لے جا سکتے ہیں۔[2] محاصرہ کے دوران میں ان کے باغات وکھیتوں کو کاٹا اور جلایا بھی گیا اس طرح اس قوم بنو نضیر کو پہلی مرتبہ جلاوطن کیا گیا اور اریحاء وتیما شام کے علاقوں میں جا کر بسے اور کچھ یہودی جیسے ابو الحقیق اور حی بن اخطب خیبر چلے گئے اور یہ زمین وباغات ومہاجرین وانصار کو تقسیم کیے گئے[3] مخریق، یامین ابوسعد وغیرہ اسی قبیلہ سے تھے۔