تبتیوں کا مقامی مذہب۔ یہ روحیت مظاہر پر مشتل تھا۔ جس کے مطابق ہر مظاہر قدرت کو جاندار تصور کیا جاتا ہے۔ ان کے اس عقیدے کو ملکی خدو و خال موسموں کی شدت اور قدرتی آفاتی سے آنے والی اچانک تباہی اور بربادی نے مزید تقویت بخشی۔ تبتی بے شمار دیوتاؤں اور ان کی اولادوں کی پرستش کرتے تھے۔ وہ اپنے تحفظ اور خوش حالی کے لیے دریاؤں، پہاڑوں چشموں اور ہواؤں کی اروح کو خوش کرنے کے لیے ان کی عبادت کرتے اور جانوں کی بھینٹ چڑھاتے تھے۔ بعد میں اسی مذہب میں کچھ تبدیلیوں کے ساتھ ’ بون ‘ مذہب حکومتی مذہب قرار پایا۔ اس کی تقاریب اور رسوم کی ادائیگی کے لیے بہت سے افراد نے پرہتوں اور کاہنوں کی صورت میں عوام پر اپنی برتری اور اقتدار کے جال ڈال رکھے تھے۔ جب ساتویں صدی میں ایک تبتی بادشاہ نے دو بدھ عورتوں سے شادی کی اور خود بھی بدھ مت اختیار کر لیا تو بدھ مت نے یہاں جڑیں پکڑنا شروع کیں۔ بدھ مت کے لیے خانقاہیں تعمیر ہوئیں اور انھیں زمینیں عطا کی گیئں اور ٹیکسوں کی چھوٹ سے نوازا گیا۔ اس طرح مستقبل میں ان کے لیے دولت اور اقتدار کی بنیادیں رکھ دیں۔ اس کے باوجود قدیم مقامی مذہب بون کو ختم نہیں کیا جاسکا۔ بدھ ازم کو ان پرانے مذہب کی بہت سی رسوم و عقائد کو اپنے اندر شامل کرنا پڑا۔ آج بھی بدھ مت بون مت کے شانہ بہ شانہ قائم ہے۔ بدھ خانقاہوں کے پہلو میں زمین، ہوا اور ذرخیزی کے دیوتاؤں کی پوجا ہو رہی ہے۔ بدھ پرہتوں، علماؤں کے ساتھ آج بھی غیب دان، جوتشی، جادوگر، آسیب اتارنے والے اور مذہبی رقاص اپنی رسوم ادا کرتے نظر آتے ہیں۔ ایک مغربی سیاح کے مطابق بون مت مذہبی عقائد اور رسوم الہیات، صوفی ازم، اخلاخیات، جوتش، شعبدے بازی اور بت پرستی کا عجیب ملغوبہ ہے۔[1]

بون کی علامت، نیلا خانہ

حوالہ جات

ترمیم
  1. جین فیر لی، شیر دریا