بھگت سنگھ دھنا جی جٹ ذات کے تھے۔ وہ راجپوتانہ (راجستھان) کے نزدیک ایک گاؤں دھواں پنڈ کے رہنے والے تھے۔ ان کی پیدائش 1473 بکرمی (سن 1415 عیسوی) کو ہوئی۔ ان کے ماں باپ بہت غریب تھے۔ دھنا جی کا بچپن تو کھیل کود میں گذر گیا اور جب جوان ہوئے تو ماں باپ نے مویشی چرانے پر لگا دیا۔

پیدائش: 1415 عیسوی

جائے پیدائش: پنڈ دھواں، راجپوتانہ (راجستھان)

پیشہ: کھیتی

عمر: 60 سال

بانی میں حصہ: 3 شبد، 2 راگوں میں

سوامی رامانند کے مشہور 12 شاگرداں میں سے ایک دھنا بھی سمجھے جاتے ہیں۔ راجستھان کے سنت شاعروں میں آپ کا نام بڑا اور معتبر ہے ، آپ عقیدت اور بھگتی کے مجسمہ مانے جاتے ہیں ۔ آپ کی پیدائش 1472کو (میکالف) کے مطابق دھوان یا دھوان پنڈ میں ہوئی تھی ۔ یہ گاؤں راجستھان کے ٹانک علاقے میں ہے ۔ آپ سیدھے سادھے کسان اور ربی بھگت تھے۔ بھائی گرداس جی لکھتے ہیں کہ باہمن پوجے دیو اور دھنا گائیں چرانے جائے۔

[1]

من گھڑت کہانی ترمیم

کسی کتاب میں بھگت دھنا کے بارے میں لکھی ہوئی ایک من گھڑت کہانی۔

بھگت دھنا جی جہاں مویشی چرانے جاتے تھے وہاں رستے میں ایک ٹھاکردوار ( مندر )تھا جس میں پتھر کی مورتیاں رکھی ہوئی تھیں۔ گاؤں کا برہمن ہر روز سویرے اور شام کو ان مورتیوں کی دیکھ بھال کرتا تھا۔ بھگت سنگھ جی نے ہمیشہ ہی اس پنڈت کو دیوتاؤں کی پوجا کرتے، گھنٹیاں بجاتے اور اشنان کرتے دیکھا تھا۔ بھگت دھنا جی کو علم ہونے لگا کہ وہ برہمن کیوں روزانہ ان مورتیوں کی پوجا کرتا ہے۔ اور اگر دیوتا دکھ دور کرتے ہیں تو وہ بھی ان کی پوجا کرے۔ کیونکہ ان کے گھر کی مفلسی کو دور کرنے کا یہ بہترین ذریعہ ہے۔ ایک دن بھگت دھنا جی سویرے سویرے ہی مندر جا پہنچے۔ اور وہاں برہمن کو پوجا کرتے پایا۔

جوں ہی برہمن کی پوجا ختم ہوئی ، بھگت دھنا جی نے ہاتھ جوڑ کر کہا؛ “ پنڈت جی ! یہ تو بتائیں کہ بھلا مورتی پوجنے سے آپ کو کیا نفع حاصل ہوتا ہے ؟”

پنڈت جی نے کہا ؛ دھنا ! ان کی پوجا کرنے سے سب مرادیں پوری ہوتی ہیں ، یہ بھگوان ہیں اور اگر خوش ہوجائیں تو جو مانگو ضرور ملتا ہے۔

دھنا جی: پنڈت جی ! مہربانی کر کے ایک دیوتا مجھے بھی دے دیں ، میں بھی ان کی پوجا کروں گا۔ جب یہ مجھ سے راضی ہو جائیں گے تو میں بھی کچھ مانگ لوں گا۔

پنڈت جی نے کہا : دھنا ! دیوتا تجھ سے خوش نہیں ہوں گے۔ بھگت دھنا جی نے پوچھا : پنڈت جی ! وہ کیوں ؟

برہمن نے کہا : بس کہہ دیا نا۔ ایک تو تم ذات کے جٹ ہو، دوسرا ان پڑھ ہو اور تیسری بات یہ کہ دیوتا مندر کے علاوہ نہ کہیں رہتے ہیں نہ خوش ہوتے ہیں۔ اس لیے تم اپنی صحف چھوڑو اور اپنی گائیوں کی ہی دیکھ بھال کرو۔ اس کے علاوہ بھی برہمن بہت سی ادھر اُدھر کی باتیں کر کے بھگت دھنا جی کو ٹالنے کی کوشش کی لیکن بھگت دھنا جی بھی اپنی ضد ہر اڑے رہے۔ پنڈت کو فکر ہوئی کہ وہ تو کمزور سا ہے کہیں دھنا اس کی پٹائی نہ کر دے۔

پنڈت نے زچ ہو کر کہا : اچھا دھنا ! اتنی ضد کر رہے ہو تو ایک دیوتا تمھیں دے ہی دیتے ہیں۔ یہ کہہ کر برہمن نے مندر میں فالتو پڑا ایک سالگرام اٹھا کر دے دیا اور پوجا کا طریقہ بھی بتا دیا۔

حوالہ جات ترمیم

  1. پنجابی ساہت دا اتہاس ڈاکٹر۔ دھرمپال سننگل