البیت العتیق:جو جانور حج کے موقع پر ھدی کے طور پر اپنے ساتھ لے جایا جاتا ہے اس کے ذبح کرنے کی جگہ ” بیت العتیق “ ہے۔

  • ” عتیق “ کے معنی قدیم کے بھی آتے ہیں اور آزاد کے بھی آتے ہیں۔
  • عتیق کے معنی میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں۔
  • (1)۔ اس کو عتیق کہنے کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ ہرجابر اور بادشاہ ظالم کے قبضہ سی اللہ نے اس گھر کو ہمیشہ آزاد رکھا ہے کوئی جابر حاکم کبھی اس پر قبضہ نہ کرسکا نہ کرسکے گا، اس لیے اس کو عتیق کہاجاتا ہے۔
  • (2) سفیان بن عیینہ فرماتے ہیں کہ اس کو عتیق کہا گیا کیونکہ اس کا کوئی مالک نہیں ہوگا۔
  • (3) حسن اور ابن زید کا قول ہے کہ عتیق اس وجہ سے کہا گیا کہ یہ قدیم گھر تھا اور سب سے پہلے بنایا گیا ہے جیسے کہاجاتا ہے دینار عتیق یعنی وہ پرانا دینار ہے۔
  • (4) بعض نے کہا کہ اس کو عتیق کہا گیا کیونکہ اللہ نے اس کو طوفان نوح سے غرق ہونے سے بچایا۔[1]

علامہ آلوسی نے کہا ہے کہ اس سے مراد موضع ذبح ہے یعنی ھدی کے جانوروں کو ذبح کرنے کا مقام بیت العتیق کے پاس ہے اور اس سے مراد پورا حرم مکہ ہے کیونکہ وہ بیت العتیق ہی کے حکم میں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ھدی کا ذبح کرنا حرم کے اندر ضروری ہے، حرم سے باہر ھدی کو ذبح کرنا جائز نہیں اور حرم سے مراد عام ہے خواہ منیٰ کا منحر اور مذبح ہو یا مکہ مکرمہ کی کوئی اور جگہ ہو۔ حدیث میں ہے مکہ کے تمام راستے اور منیٰ کے تمام راستے منحر (مذبح) ہیں۔[2]

حوالہ جات

ترمیم
  1. تفسیر بغوی۔ ابو محمد حسین بن مسعود الفراء بغوی
  2. روح المعانی جز 17ص 226 مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت