فرض کرو کہ کسی بیماری کی تشخیص کے لیے ایک اختبار دستیاب ہے، مگر بیماری (disease) موجود ہونے کی صورت میں یہ اختبار 99 فیصد وقوع میں صحیح مثبت (positive) نتیجہ دیتا ہے، یعنی مشروط احتمال
بیماری نہ ہونے کی صورت (no disease) میں یہ اختبار 98 فیصد وقوع میں صحیح منفی (negative) نتیجہ دیتا ہے، یعنی مشروط احتمال
آبادی میں اس بیماری کا تناسب ہزار میں ایک ہے، یعنی بنفسیہ احتمال
اب ہم جاننا چاہتے ہیں کہ اگر کسی شخص کا اختبار کا نتیجہ مثبت نکلتا ہے، تو اس کا کیا احتمال ہے کہ اس شخص کو واقعی یہ بیماری ہے، یعنی ہم جاننا چاہتے ہیں۔ اب بے ز قاعدہ کا استعمال کرتے ہوئے
اقدار ڈالتے ہوئے
یعنی اختبار کا نتیجہ مثبت ملنے پر واقعی بیماری ہونے کا احتمال صرف 4.7 فیصد ہے۔ اگر آپ کے لیے اس مثال کا نتیجہ حیران کن ہے تو غور کریں یہ بنفسیہ احتمال کا اثر ہے۔
Hypothesis odds Likelihood ratio a priori posteriori
اوپر دیے بے ز قاعدہ کو مختلف شکل میں لکھا جا سکتا ہے۔ اگر ایک واقعہM ہے اور اس کا متمم، تو ان کے احتمال کا تناسب
اس مفروضہ (واقعہ) M کے odds کو ظاہر کرتا ہے۔ واضح رہے کہ:
اب اگر ایک واقعہ C رونماء ہوتا ہے، جس سے ہمیں مفروضہ M کے بارے میں کچھ نئی معلومات ملتی ہیں،
تو اس نئی معلومات کی روشنی میں مفروضہ M کے نئے odds یہ ہوں گے
جہاں
کو امکاناتی تناسب کہا جاتا ہے۔ نظریہ احتمال و احصاء کی زبان میں مفروضہ کے اصلی odds کو بنفیسہ odds کہا جاتا ہے اور نئے odds کو بمثلیہ odds کہتے ہیں۔ یعنی بے ز قاعدہ کی مختلف شکل یوں ہے:
(بمثلیہ odds ) = (بنفیسہ odds) (امکاناتی تناسب)
اوپر کی بے ز مساوات کے numerator اور denominator میں بے ز قاعدہ کے استعمال سے اس مساوات کی تصدیق ہوتی ہے، مثلاً numerator کے لیے