تائیوان میں عصمت فروشی

تائیوان میں عصمت فروشی (انگریزی: Prostitution in Taiwan) کو 1991ء میں ایک قانون لا کر غیر قانونی قرار دیا گیا۔2011ء میں ایک قانون متعارف کرایا گیا جس کی رو سے تائیوان میں ایسے مقامات مخصوص کیے جائیں کہاں طوائفیں اپنا کاروبار کر سکیں۔ ان مخصوص جگہوں کے باہر ان کو اجازت نہ ہو مگر اب تک ایسا کوئی مخصوص علاقہ بنایا نہیں جا سکا ہے۔[1]

تاریخ

ترمیم

تائیوان میں جاپانی حکومت کے دوران میں کچھ مخصوص علاقوں میں گیشا اور کوٹھے کھولنے کی اجازت دی گئی۔ 1950ء کی دہائی تک کئی لڑکیوں کو اہل خانہ نے مالی فائدہ کے لیے جسم فروشی کے لیے جانے پر مجبور کیا اور انھوں نے بخوشی اسے قبول کر لیا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جاپانیوں نے کئی عورتوں برائے خواتین برائے تسکین بھرتی کیا۔ اسی دوران میں کئی کوریائی خواتین تائیوان میں جاپانیوں کے لیے طوائف بن کر آئیں۔[2][3]

بعد از جنگ نیشنلسٹ حکومت (1945ء تا حال)

ترمیم

1945ء میں جمہوری عوامی چین نے تائیوان کا تسلط قائم کر لیا اور چینی کومنتانگ حکومت نے زیادہ تر مضیفات اور طوائف پر پابندی لگا دی۔اور عصمت فروشی کو جاپانیوں کا غیر اخلاقی کارنامہ بتایا۔ لیکن اسی دوران میں وزارت دفاع نے دوسرے جزیرے پر 1949ء میں آئے چینی فوجیوں کی ضرورت کے مدنظر ان کو جنسی خدمات مہیا کیں۔ 1960ء کی دہائی میں صنعت کاری میں خوب ترقی دیکھنے کو ملی اور نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد گاؤں سے شہر کی طرف آئی جس کی وجہ سے کافی کی دکانوں میں بھیڑ لگنے لگی جہاں مرد خریداروں کو کافی پیش کرنے کے لیے کمسن لڑکیوں اور مضیفات کو نوکری پر رکھا گیا۔اسی زمانے میں امریکا کے دو آرمی بیس قائم ہوئے جس کی وجہ سے ناچ ہال اور بار وغیرہ کی کثرت ہو گئی۔ عصمت فروشی کے بڑھتے کاروبار نے حکومت کا دھیان اپنی طرف متوجہ کیا اور عوام میں اور بعض دفعہ نجی میں جنسی لین دین پر پابندی لگنے لگی اور پولس کی نظر بحی رہنے لگی۔ 1974ء میں حکومت نے نئے کوٹھوں لا لئسنس دینا بند کر دیا۔ 1980ء میں لڑکیوں کو عصمت فروشی میں جبرا داخل کرنے کا معاملہ جب زیادہ بڑھنے لگا تو اس کے خلاف تحریک شروع ہوئی اور پورے ملک میں احتجاج ہونے لگے۔ عصمت فروشی کو غیر قانونی قرار دینے کی آخری کوشش تائیوان کے دار الحکومت تائی پی میں 1997ء میں مییر چین شوئی بیان کے دور میں کی گئی۔[4] لیکن چین کو اگلے انتخابات میں ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا اور ان کے خلف ما ینگ جیو نے اپریل 2001ء تک کے لیے فیصلہ کو ٹال دیا۔[5][6][7]

حوالہ جات

ترمیم
  1. "Legal Prostitution Coming Back To Taipei?"۔ Red Brick Daily۔ 15 August 2017۔ 01 دسمبر 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 نومبر 2017 
  2. Jungwon Jin (2014)۔ "Reconsidering Prostitution under the Japanese Occupation - Through the Korean Brothels in Colonial Taiwan"۔ The Review of Korean Studies۔ 17 (1): 115–157 
  3. Jungwon JIN (September 2010)۔ "Standing in the Gap of Society: Korean Prostitutes in Colonial Taiwan" (PDF)۔ Taiwan Historical Research۔ 17 (3): 107–149۔ 2015-05-18 میں اصل سے آرکائیو شدہ (PDF)۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 مارچ 2017 
  4. Jungwon Jin (2014)۔ "Reconsidering Prostitution under the Japanese Occupation - Through the Korean Brothels in Colonial Taiwan"۔ The Review of Korean Studies۔ 17 (1): 115–157 
  5. Taipei's legal prostitution ends at midnight. Asia Political News April 2 2001
  6. Taipei’s legal brothels shut. The Straits Times, 28 March 2001
  7. "Defend Freedom of Expression; Protest Imminent Prosecution of Sexual Rights Scholar/Activist. IGLHRC July 17 2003"۔ 11 جولا‎ئی 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 مارچ 2019