تبادلۂ خیال:ببرک کارمل


دیگر معلومات

ترمیم

ببرک کارمل (اصل نام: سلطان حسین) 27 دسمبر 1979 کو سوویت یونین نے اس وقت افغانستان کا سربراہ مقرر کیا جب سوویت فوج نے "آپریشن سٹارم 333" میں حفیظ اللہ امین کو قتل کر دیا تھا۔ امین کے بارے میں سوویت ایجنسی کے جی بی کو شبہ تھا کہ ادرون خانہ امین سی آئی اے کے ساتھ تعلقات رکھتا تھا چنانچہ امین کو راستے سے ہٹا کر کے جی بی کے سربراہ اور سوویت پولٹ بیورو کے اہم رکن یوری آندروپوو نے ببرک کارمل کی صورت میں اپنا نمائندہ افغانستان پر مقرر کیا۔ کارمل کا تعلق افغان کمیونسٹ پارٹی پی ڈی پی اے کے پرچم دھڑے سے تھا۔ جس وقت امین کو قتل کیا گیا، کارمل بگرام میں کے جی بی کے سٹیشن ہیڈ کوارٹر میں موجود تھا۔ اسے ماسکو سے منظور شدہ ایک لکھی ہوئی تقریر دی گئی جسے ریکارڈ کر کے واپس تاشقند بھجوایا گیا اور سوویت ریڈیو سٹیشن سے افغان ریڈیو کی فریکوئنسی پر نشر کیا گیا۔ یوں انقلاب ثور کے ڈیڑھ برس بعد تیسرا کمیونسٹ حکمران کابل پر مسلط ہوا۔ ببرک کارمل بظاہر کابل کا حکمران تھا لیکن اس کی حیثیت کسی طور ایک کٹھ پتلی سے زیادہ نہیں تھی۔ اس کے ارد گرد موجود تمام عملہ کے جی بی کے سوویت ایجنٹس پر مشتمل تھا۔ یہاں تک کہ صدارتی محل کے باورچی، ویٹرز اور ڈرائیورز بھی سوویت یونین سے درآمد کردہ تھے۔ کارمل کے ساتھ ہر وقت کے جی بی کا ایک سینئیر نمائندہ اور مترجم موجود رہتے تھے اور اس کی ہر تقریر ماسکو سے تیار ہو کر آتی تھی۔ عوامی تقریبات میں کارمل کے گرد افغان باڈی گارڈز نظر آتے تھے لیکن ان کے ہاتھوں میں موجود اسلحہ ایمونیشن سے خالی ہوتا تھا۔ ان گارڈز سے باہر ان سوویت گارڈز کا حلقہ ہوتا تھا جو واقعی مسلح ہوتے تھے۔ کارمل اور حفیظ سے پہلے نور محمد ترہ کئی کے دور میں کمیونسٹ حکومت نے ملک بھر میں کم و بیش تین لاکھ اسلام پسندوں کو حکومت کے لیے خطرے کے طور پر شناخت کر رکھا تھا جن کے خلاف آپریشن میں دس ہزار سے زاید افراد قتل اور لاپتا کیے جا چکے تھے۔ اس کے علاوہ کمیونسٹ پارٹی کے دو دھڑوں ۔۔۔۔۔ پرچم اور خلق کے درمیان بھی لڑائی جھگڑے جاری تھے۔ خلق دھڑے کے تقریباً 2700 افراد بھی جیلوں میں قید تھے۔ کارمل نے اسلام پسندوں کے خلاف لڑنے کے لیے خلق دھڑے کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کی اور ان 2700 قیدیوں میں سے 2600 کو رہا کر دیا گیا۔ مزید برآں وزارتوں اور افغان فوج کی کمان میں بھی پرچم اور خلق دونوں دھڑوں کو نمائندگی دی گئی تاکہ اسلام پسندوں کے خطرے سے نمٹا جا سکے جو پاکستان کی مدد سے "جہاد" شروع کر چکے تھے۔ سوویت مداخلت سے پہلے افغان فوج کی تعداد تقریباً ایک لاکھ نفوس پر مشتمل تھی لیکن سوویت افواج کے آنے کے بعد یہ تعداد کم ہو کر محض 25000 رہ گئی تھی کیونکہ عوام کی اکثریت اس حکومت کو اپنی نمائندہ حکومت نہیں سمجھتی تھی۔ کارمل انتظامیہ نے فوجی بجٹ میں چار گنا اضافہ کر کے افغان فوج کی تعداد بڑھانے کی بھرپور کوشش کی لیکن یہ تعداد بمشکل 40000 تک ہی پہنچ سکی۔ اس لیے مجاہدین کے خلاف لڑنے اور عوام کو کنٹرول کرنے کے لیے 105000 سوویت دستوں کو افغانستان میں تعینات کیا گیا جنہوں نے اگلے دس برس تک لاکھوں افغانیوں کے خون سے ہاتھ رنگے ۔۔۔۔۔ اس کی تفصیلات ڈاکٹر نجیب والی پوسٹ میں عرض کروں گا۔ کارمل انتظامیہ نے سوویت یونین کی حمایت سے پاکستان کے خلاف سرحدی خلاف ورزیوں، گولہ باری، فضائی حملوں جو سلسلہ شروع کیا، اس کے بارے صرف اتنا بتانا ضروری ہے کہ اکتوبر 1986 میں پاکستان کی قومی اسمبلی میں بتایا گیا کہ کابل انتظامیہ نے گزشتہ سات برس کے دوران ہر ماہ اوسطاً 19 مرتبہ سرحدی خلاف ورزی کی جبکہ اس دوران پاکستان میں دہشت گردی کے ایک ہزار سے زاید واقعات ہوئے جن میں افغان ایجنٹ ملوث تھے۔ افغانستان کو کنٹرول کرنے میں ناکامی پر کے جی بی نے اپنی بلا ببرک کارمل کے سر ڈالی اور مارچ 1986 میں کارمل پر واضح کر دیا کہ وہ حکمرانی کا اہل نہیں۔ دوسری جانب خاد کا سابق چیف ڈاکٹر نجیب کے جی بی کے ساتھ تعلقات مضبوط کر چکا تھا چناچہ 4 مئی 1986 کو کارمل سے استعفیٰ لے کر نجیب کو کرسی اقتدار پر بٹھا دیا گیا۔--امین اکبر (تبادلۂ خیالشراکتیں) 07:06، 4 جولائی 2019ء (م ع و)

واپس "ببرک کارمل" پر