تبادلۂ خیال:بیریلیم
بیریلیم(Beryllium)
ترمیمبیریلیم ایلیمنٹ کا تعلق الکلاٸن ارتھ گروپ سے ہے یعنی ایسا گروپ جس سے تعلق رکھنے والے ایلیمنٹس کے ایٹمز کے ویلنس شیل میں دو الیکٹرونز ہوتے ہیں۔اسکو Be سے ظاہر کیا جاتا ہے اسکا اٹامک نمبر چار اور اٹامک ماس نو ہے۔اگر اسکے میلٹنگ اور بواٸلنگ پواٸنٹ کی بات کی جاۓ تو وہ بالترتیب 1287C اور 2469C ہے۔لیتھیم کے بعد کاٸنات میں پایا جانے والا سب سے ہلکا ایلیمنٹ ہے لیکن اسکی ڈینسٹی اور سختی لیتھیم کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔اس کی ڈینسٹی پانی سے تقریباً دو گنا زیادہ ہے۔اگر اس کی سختی کی بات کی جاۓ تو موہز سکیل میں اس کی سختی تقریباً 5.5 ہے۔اس کی سختی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ لیتھیم کی سختی 0.6 ہے جس کا مطلب ہے کہ لیتھیم کو چھری کی مدد سے کاٹا جاسکتا ہے اور بریلیم کی سختی تو لیتھیم سے کٸ گنا زیادہ ہے۔اگر آپ کے پاس ایک مول بریلیم کا ہے تو آپ کو اس ایک مول بریلیم کو ون پازیٹو چارچ دینے کے لیے یعنی اس کے ایٹمز کے ویلنس شیل میں سے ایک الیکٹرون نکالنے کے لیے آپ کو 899.5 کلوجول انرجی درکار ہوگی۔مزید یہ کہ اسکا رنگ سرمٸ سفید ہوتا ہے اور اس کی بناوٹ مسدس شکل کی ہوتی ہے۔ اگر بات کی جاۓ اس کی دریافت کی تو اس کو 1798ء میں ایک فرانسیسی کیمسٹ نکولس لوٸس واویلین نے ایک بیرل نامی منرل کی چٹانوں میں دریافت کیا۔چونکہ اسکا ذاٸقہ میٹھا تھا اس لیے اس نے اس کا نام گلوشینیم رکھا جس کا مطلب ہے ”میٹھا ذاٸقہ“ جبکہ اسکا سرکاری نام 1957ء میں بیریلیم رکھا گیا۔یہ جتنا میٹھا ہے اتنا ہی زہریلا بھی ہوتا ہے اس لیے کبھی اس کا ذاٸقہ چکھنے کی کوشش نہ کریں۔بیریم آکساٸیڈ جو ایک سفید پاٶڈر ہوتا ہے اس کو جب تجارتی پیمانے پر بنایا جاتا ہے تو ورکزر کو بہت زیادہ احتیاط برتنی پڑتی ہے کیونکہ اگر پاٶڈر کی دھول سانس کے ذریعے اندر چلی جاۓتو یہ آپ کے پھیپڑوں اور گلے کے لیے بہت نقصان دہ ہے یہ اتنا نقصان دہ ہے کہ اگر یہ اگر اسکی دھول سانس کے ذریعے اندر چلی جاۓ تو یہ پھپیڑوں اور گلے کا کینسر کا باعث بن سکتی ہے۔اسکی دریافت کے کٸ سال بعد یعنی 1828ء میں اس کو پہلی دفعہ دو کیمسٹس جن کا نام فریڈرک اور انٹونی نے اس کو انفرادی طورپر منرلز سے علیحدہ کیا۔پوٹاشیم کے ساتھ جب بیریلیم کلوراٸیڈ کا کیماٸ تعامل کروایا گیا تو بیریلیم الگ ہوگیا۔ BeCl2 + 2 K → 2 KCl + Be تجارتی پیمانے پر اسکا استعمال کرنے والے بہت کم ممالک شامل ہیں جن میں سر فہرست امریکہ ہے لیکن تجارتی پیمانے پر جرمنی نے 1921ء میں سب سے پہلے بیریلیم کی تیاری کی۔یہ تجارتی پیمانے پر دنیا بھر میں اس لیے پیدا نہیں کیا جاتس کیونکہ اس کو اورز اور منرل سے علیحد کرنے کا پراسس بہت مشکل ہے۔ار بات کی جاۓ کہ کن منرلز میں پایا جاتا ہے تو اس میں بیرل،فیناکاٸٹ اور براٹرنکلاٸن وہ منرلز ہیں جن میں بیریلیم سب سے زیادہ مقدار میں پایا جاتا ہے۔ کم ڈیسٹی،زیادہ مضبوطی اور سختی،زیادہ تھرمل سٹیبیلٹی اور تھرمل الیکٹریکل کنڈیکٹیویٹی اور زیادہ ایلسٹیوسٹی کی وجہ سے اس کو الیکٹرونکس،ٹیلی کمیونیکیش،دفاٸ شعبہ،اسپیس ٹیکنالوجی میں اس کا استعمال زبردست اور بہت مفید ہے۔دفاٸ شعبہ اور اسپیس ٹیکنالوجی میں سب سے زیادہ اہم چیز جو کسی میٹریل میں موجود ہو وہ اس کا کم وزنی زیاد تھرمل سٹیبل اور اسکی مضبوطی ہونا ہے اور چونکہ یہ تمام خوبیاں بیریلیم میں موجود ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہواٸ جہاز ہوں یا ہیلی کاپیٹرز ہوں یا سیٹلاٸیٹس ان کے پرزے بیریلم اور اس کے الوٸز وغیرہ سے تیار کیے جاتے ہیں۔بالخصوص ایروسینک ایٸر کرافٹس یعنی جن کی سپیڈ آواز سے بھی زیادہ ہوتی ہے اس میں اس کا استعمال اسکو دوسرے میٹریلز سے منفرد بناتا ہے۔اس کے علاوہ سپیس ٹیکنالوجی میں اس کا سب سے شاندار استعمال جیمز ویب سپیس ٹیلی سکوپ کے مررز کے طور پر ہے جس کو 2021ء میں ناسا کی طرف سے لانچ کیا جاۓ گا۔جیمز ویب سپیس ٹیپلی سکوپ میں یہ کیوں استعمال کیا گیا ہےمیرے خیال میں اسکی تین وجوہات ہیں سب سے پہلی یہ کہ یہ دوسرے ٹھوس میٹریل کی نسبت بہت ہلکا ہے دوسری یہ کہ اس کی تھرمل سٹیبیلٹی بہت زیادہ ہے یعنی یہ 30 کیلون ٹمپریچر پر بھی اپنی شکل برقرار رکھ سکتا ہے اور تیسری یہ ہے یہ بہت سخت اور مضبوط ایلیمنٹ ہے۔ طب کے شعبہ میں اس کا اسعتمال بہت ہی زبردست ہے جو اسکو دوسرے تمام میٹلز سے نمایاں اور منفرد بناتا ہے اورہے ایکسرے ٹیوب میں ونڈو کے طور پر استعمال ہونا۔جب ایکس ریز ٹارگیٹنگ میٹریل سے نکلتی ہیں تو ٹیوب کی ونڈو میں سے ان کو نکلنا ہوتا ہے۔اگر ونڈو کو بیریلیم کے علاوہ کسی اور میٹیریل سے بنایا جاۓ تو زیادہ تر ایکس ریز ان میں جذب ہوجاتی ہیں لیکن اگر اسکی بجاۓ بیریلیم کو استعمال کیا جاۓ تو زیادہ تر ایکس ریز سکیٹرنگ یا رفلیٹ ہوۓ بغیر بیریلم میں سے سیدھی گزر جاتی ہیں یعنی یہ ایکس ریز کے لیے ٹرانسپیرنٹ میٹریل کا کام کرتا ہے۔اگرچہ ونڈو کے لیے گلاس بھی استعمال کیا جاسکتا ہےچونکہ گلاس بیریلیم کی نسبت زیادہ تر ایکس ریز کو جذب کرلیتا ہے جس سے امیج کی کوالٹی اتنی بہتر نہیں آۓ گی۔چونکہ بیریلیم گلاس کی نسبت بہت مہنگا ہوتا ہے سو اس لیے بیریلیم ایکس رے ٹیوب کی قیمت گلاس ٹیوب کی نسبت کافی زیادہ ہوتی ہے۔اس کے علاوہ بیریلم کو نیوکلیر ری ایکٹر میں بطور ماڈریٹر استعمال کیاجاتا ہے۔ماڈریٹر سے مراد ایسا میٹریل ہوتا ہے جو نیوکلیر فشن ری ایکشن کے نتیجہ میں یورینیم 235 سے نکلنے والے نیوٹرانز کی انرجی کو کم کرتا ہے تاکہ یہ نیوٹرانز مزید یورینیم کی فشن کرسکیں۔کونکہ یورنیم میں سے نکلنے والے نیوٹرانز کی انرجی کافی زیادہ ہوتی ہے جو کہ تقریباً 2M الیکٹرون وولٹ تک ہوتی ہے اور اتنی زیادہ انرجی رکھنے والے الیکٹرونز بغیر فشن کیے یورینیم میں سے تیزی سے نکل جاتے ہیں۔اس لیے اگر ہم چاہتے ہیں کہ نوکلیر فشن ری ایکشن کو جاری رکھ سکیں تو ہمیں ایسے میٹریل کی ضرورت ہوگی جو ان نیوٹرانز کی انرجی کو کم کر سکے تاکہ یورینیم سے نکلنے والے سارے نیوٹرانز یعنی تین نیوٹرانز میں سے ہر ایک نیوٹران مزید یورینیم کو فشن کرواسکے یعنی اس میں سے تین نیوٹرانز نکال سکے۔موڈریٹر کے لیے کچھ شراٸط بھی لازمی ہوتی ہیں پہلی یہ کہ اس کا اٹامک نمبر کم ہو اور بیریلیم کا اٹامک نمبر کم ہے۔دوسری یہ کہ اس کا نیوٹرانز کو جذب کرنے کے لیے کراس سیکشن بہت کم ہو کیونکہ اگر کراس سکشن زیادہ ہوگا تو زیادہ تر نیوٹرانز تو جذب ہوجاٸیں گے اور مزید فشن نہ ہوپاۓ گی اور چونکہ بیریلیم کا نیوٹرانز کو جذب کرنے کے لیے کراس سیکشن بہت کم ہوتا ہے کیونکہ اس کا اٹامک ساٸز بہت چھوٹا ہوتا ہے۔اس کے علاوہ پانی کو بھی نیوکلر ماڈریٹر کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے لیکن یہ بیریلیم کی نسبت اتنا موٸثر نہیں ہوتا۔ بیریلیم ک چونکہ تھرمل کنڈکٹیویٹی بہت زیادہ ہوتی ہے اور مزید یہ کہ یہ کاپر کے ساتھ اس کے الوٸز کو ٹیلی کمیونیکشن اور الیکٹونک سرکٹ اور کنٹیکٹرز اور سپرنگ بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔مزے ک بات یہ ہے کہ بیریلم ایک نان میگنیٹک میٹریل ہے یعنی اگر اس کو میگنیٹک فیلڈ میں رکھا جاۓ تو اس پر اس کاکچھ اثر نہیں ہوگا۔اس کے علاوہ اس کے پاس زنگ کے خلاف کافی مزحمت کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے کیونکہ جب یہ آکسیجن کے ساتھ کیمیاٸ تعامل کرتا ہے تو یہ بیریلیم آکساٸیڈ بناتا ہے جو کہ اس کی سطح پر پتلی تہہ ہوتی اور جو مزید آکسیجن کو اس کے ساتھ کیماٸ تعامل نہیں کرنے دیتی۔اور یہ خوبی کی وجہ سے آٹوموباٸل اور ویلڈنگ میں اس کا استعمال زبردست انتخاب ہے۔ ہوا(آکسیجن)،ہیلوجنز،ایسڈ اور بیس کے ساتھ بیریلیم کے ری ایکشنز: 600 سیلسیس پر آکسیجن کے ساتھ کیمیاٸ تعامل کرکے بیریلیم آکساٸیڈ بناتا ہے 2Be(s) + O2(g) → 2BeO(s) ہیلوجنز کے ساتھ ری ایکشن Be(s) + Cl2(g) → BeCl2(s) Be(s) + Br2(g) → BeBr2(s) ایسڈ کے ساتھ ری ایکشن Be(s) + H2SO4(aq) → Be2+(aq) + SO42-(aq) + H2(g) بیس کے ساتھ ری ایکشن 2NaOH(aq) + Be(OH)2(s) → Na2Be(OH)4(aq) لیکن افسوس کی بات ہے کہ بیچارہ بریلیم پانی کے ساتھ کیمیاٸ تعامل نہیں کرتا چاہے آپ اس کو 3000K تک ہی کیوں نہ گرم کردیں۔ تحریر:محمد شاہ رخ --امین اکبر (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 13:26، 22 نومبر 2021ء (م ع و)